باخبر کی بے خبری ۔ ابویحییٰ
ایک مغربی مصنف کا قول ہے کہ اپنے اردگرد کے حالات سے سب سے زیادہ بے خبر لوگ وہ ہوتے ہیں جو مقامی خبریں مکمل ذوق و شوق سے دیکھتے، سنتے اور پڑھنے کے عادی ہوتے ہیں۔
یہ قول بلاشبہ ایک سنگین ترین حقیقت کا بیان ہے۔ اس دنیا میں ہر مزاج کے انسان پائے جاتے ہیں اور ہر طرح کے واقعات بھی رونما ہو رہے ہوتے ہیں۔ یہاں حادثات ہوتے ہیں۔ جرائم اور سانحات ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ مگر عام حالات میں انسانی معاشرے میں یہ استثنائی صورتحال ہوتی ہے۔ یعنی ایک کروڑ کی آبادی میں چند لوگ قتل ہو جاتے ہیں۔ بلاشبہ چند لوگوں کا قتل بھی ایک سنگین بات ہے، مگر آبادی کے تناسب کے لحاظ سے معاشرے کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
دوسری طرف اسی شہر میں ہزاروں لاکھوں معمول کے واقعات جاری و ساری ہوتے ہیں۔ تاہم میڈیا کے لیے ان معمول کے نارمل اور اچھے واقعات میں خبر کا کوئی پہلو نہیں ہوتا۔ اس کی دلچسپی ہمیشہ استثنائی اور سنسنی خیز واقعات میں ہوتی ہے۔ اس لیے میڈیا پر ہمیشہ قتل کے جرائم کی خبریں، حادثے اور سانحات کی نوعیت کی چیزیں ہی بیان ہو رہی ہوتی ہے۔ مگر جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ یہ سب استثنائی واقعات ہوتے ہیں اور لاکھوں لوگ اس سب کے باوجود نارمل زندگی گزار کر ہی اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔
تاہم میڈیا دیکھنے والے نارمل حالات کے بجائے انہی سنسنی خیز اور منفی خبروں کو دیکھ کر اپنا ذہن بناتے ہیں۔ وہ مستقل خوف اور اندیشے میں جینے لگتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ انہیں معاشرے میں کوئی چیز نارمل نظر نہیں آتی۔ یہی وہ چیز ہے جو ایک باخبر آدمی کی بے خبری کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ مگر یہ بے خبری بے قیمت نہیں۔ اس کی قیمت انسان کا اپنا ذہنی سکون ہے۔ بلاشبہ یہ سب سے بڑی قیمت ہے جو کوئی انسان دے سکتا ہے۔