باغبانی اور انسانی تربیت ۔ فرح رضوان
ہمارے بچپن میں جب ہمارے مکان کی بنیادیں رکھی جا رہی تھیں تب امی نے فرنٹ اور بیک یارڈ میں مختلف اقسام کے پودے لگوائے تھے۔ وقت گذرتا رہا۔ مکان بنتا رہا۔ پودے بڑھتے رہے اور جب ہم نئے گھر میں ذرا ہوش سنبھالا تو الحمد للہ ہر سو ہریالی تھی۔
مجھے لگتا ہے کہ اس دور میں جہاں گھر کا رقبہ سکڑتا ہوا فلیٹوں کی شکل میں تبدیل ہوچکا ہے وہاں بھی چھوٹے بڑے گملوں میں جو کچھ بھی اگایا جاسکے ضرور اگانا چاہییے کیونکہ یہ عمل بچوں کو کسی کمزور کا دھیان رکھنے کے اسباق ذہن میں پختہ کر دیتا ہے۔
آج کل واک پر نکلیں تو ہر سو گھنے درخت جھوم جھوم کر رب تعالیٰ کی ثنا بیان کرتے ہیں۔ انھیں دیکھ کر خدا کی ربوبیت پرایمان مستحکم ہوجاتا ہے۔ کبھی یہ تناور درخت فقط ایک کونپل تھے۔ مگر یہ اللہ ہی ہے جس نے ان کو ہر چرند پرند کے نقصان سے محفوظ رکھا۔ ان درختوں پر کتنی خزاں گزریں، لیکن ان کی نشوونما نہیں رکی۔ اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے۔
جب ہم نے سکول جانا شروع کیا تو مالی بابا صبح صبح ہمارے لان سے چنے ہوئے پھولوں سے سکول جانے والے ہم دونوں بھائی بہن کو خوشبودار گلدستے تھما دیتے۔ ہمیں ٹیچر اور پرنسپل سے بڑی پذیرائی ملتی۔ چھٹیوں میں موگرے کے سینکڑوں پھول ہر روز توڑنا ہم دونوں بڑے بھائی بہن کے ذمے تھا۔ جب ہر روز صبح صبح ہم دونوں بھائی بہن تازہ پھولوں کی ٹوکری لے کر تھوڑے تھوڑے پھول محلے کے سب گھروں میں دے کر آتے تو دعا سلام، خیریت و محبت اور دعاؤں کے تبادلے ہوتے، بے لوث محبتیں روح میں اتر جاتیں۔
صبح جلد اٹھنے کا سبق بھی ہم نے ایسے سیکھا کہ دو ایک بار سوتے رہے اور علی الصباح پھول نہیں توڑ سکے۔ ذرا ہی دیر میں سخت گرمی سے ہم جھلسنے لگے اور دوپہر تک پھول مرجھا گئے۔ یوں یہ دن کسی کو خوش کر دینے اور دعائیں لینے والا دن نہ رہتا اوردوسرا تازہ پھول جب دیئے نہیں گئے تو کسی کام کے نہ رہے۔ جب وہ نہیں توڑے گئے تو ان کے پیچھے جن پھولوں کو آنا تھا ان کا حق مارا گیا۔ اس کا براہ راست اثر پودے پر پڑا۔ جیسے اکثر ہمارے ہاں ہوتا ہے کہ حق دار کی باری نہیں آتی اور ادارے بیٹھ جاتے ہیں۔ بہرحال کس طرح کانٹوں سے بچ بچاکر زندگی میں پھول چنے جاسکتے ہیں، کیسے ان کی نشونما کے لیے وقتی طور پر کھاد کی بو برداشت کرنی ہی پڑتی ہے ہم سب ساتھ ساتھ سیکھتے گئے۔
فالسے، امرود، پپیتے، کیلے، آم، لیموں، انار کے جھاڑ اور درختوں پر جب پھل لگتے تو کوئی بھی اس ’’جنت‘‘ کے پھل بلا اجازت نہیں کھا سکتا تھا۔ امی کو بتایا جاتا اور وہ ہمیں بتاتیں کہ تقریباً اتنے دن میں یہ بڑا ہوگا۔ ان کے متعلق مالی بابا سے بات ہوتی تو ہم سیکھتے کہ پھل میٹھا کرنا ہو یا درخت بڑا چاہتے ہو تو ان میں سے کوئی کام بھی پھل اور پتوں پر پانی ڈال کر نہیں ہوگا بلکہ جڑوں سے ہوگا۔ ان بے رنگ بد مزہ جڑوں کی خدمت کے صلے میں تازے رسیلے پھل ملیں سکیں گے۔ امی کبھی ہماری ضد پر کچا پھل توڑ کر دے دیتیں اور ہم تھو تھو کر کے چکھتے تب سبق پکّا ہوجاتا کہ واقعی ’’صبر کا پھل ہی میٹھا ہوتا ہے‘‘۔
آم کا درخت پانچ سال سے قبل پھل نہیں دے سکتا اور شروع میں بڑے بڑے پھل بھی نہیں دے سکتا یعنی کسی کی طاقت اور صلاحیت سے بڑھ کر نہ اس سے توقع کی جائے نہ ہی عار دلایا جائے۔ ایک اور صبر آزما مرحلہ، گھر کے درختوں سے کچے کیلے اور بازار سے کچے آموں کو لے کر پال لگانا، امی ان کو پرانے صندوق میں اخبار میں لپیٹ کر رکھتیں، اور ہم ہر روز ان کو یاد دلا کر پوچھتے پک گئے اور جواب ملتا صبر کا پھل۔۔۔۔ جب مقرّرہ وقت پر پیٹی کھلتی تو میٹھے پھلوں کی مہک سے ماحول تروتازگی اورخوشبو سے جی اٹھتا۔
بیچ کے ایک حصے میں سبزیوں کی کیاریاں تھیں؛ محلے والے اکثر شام میں ہمارے گھر سے سبزی لے لیا کرتے۔ مگر کچھ کم نہ ہوتا، اللہ تعالی اور دے دیتا دُگنا چوگنا۔ امجد اسلام امجد صاحب نے صرف محبت کے بارے میں فرمایا ہے کہ ایسا دریا ہے کہ بارش روٹھ بھی جائے تو یہ سوکھا نہیں کرتا۔ ہوسکتا ہے ان کے گھر میں پالک کی کاشت نہ ہو! کیونکہ لوگ ہمارے گھر سے خوب خوب پالک کاٹ کر لے جاتے، لیکن وہ پھر سے ویسی ہی پھل پھول جاتی، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
پھر ایک دفعہ سیلاب آگیا۔ ہمارا سارا شہر ڈوب گیا۔ روڈ پر کاروں کی جگہ کشتیاں چلنے لگیں ۔ گیارہ بارہ سال کی عمر میں یہ بہت ہی بڑا تجربہ تھا۔ سب کچھ ختم۔۔۔ سب برباد ہوگیا۔ زمین میں تھور آگیا تھا۔ لگتا تھا اب کچھ بھی نہیں اُگ سکے گا۔ بہار لوٹ آئے تب بھی گلشن میں رنگ و بو کا میلہ اور ہر دم قسم قسم کی چڑیوں کی آمد ورفت چہل پہل نہ رہے گی، لیکن انسان کے دو تین وصف یعنی ہمت، تدبیر، عزم، سب مل جل کر بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ اور مسلمان کے ساتھ تو سب سے بڑا عنصر دعا اور صبر کے ساتھ استقامت بھی ہوتی ہے۔ اب کی بار امی نے نیا کام کیا، فرنٹ یارڈ کو گاؤں کے کچے صحن کی طرح بنایا، بہت لمبا کام تھا لیکن ہم نے خود سب کچھ کیا اور بہترین نتیجہ پایا الحمد للہ۔ بیک یارڈ جو اس سے کافی بڑا تھا اس میں گنّے لگائے گئے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ تھور زدہ زمین پر نہ صرف پنپ جاتے ہیں، بلکہ اسکا نمک بھی ختم کر دیتے ہیں۔ زندگی کے یہ گر بھلا کس یونیورسٹی سے سیکھنے کو مل سکتے ہیں جو قدرت ہمیں سکھلاتی ہے۔ اور قدرت کے انمول تحائف میں سب سے انمول پر حکمت ماں اور باپ کا ٹیم ورک۔ رب ارحمھما کما ربینی صغیرا۔