بچے ہمارے عہد کے 2 ۔ فرح رضوان
فرح رضوان
بچے ہمارے عہد کے
غیر محفوظ حالات میں حفاظت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم نے اپنی زندگیوں میں سے بہت سی تفریح، بہت سے راستے، بہت سے شوق تلف کر دیے ہیں۔ مگر پھر بھی، ایک بہت ہی ہلاکت خیز مواد عموماً ہمارے ساتھ چلتا اور پلتا، پھلتا اور پھولتا چلا آرہا ہوتا ہے۔ اور عموما ہم اس سے بے خبر ہی رہتے ہیں۔ وہ ہے معاشرے میں تیزی سے پروان چڑھتی ہوئی شو آف یا ریا کاری کی عادت، یہ دونوں ہی عادات آخرت کی خرابی کا سامان تو ہیں ہی ساتھ ہی دنیا کے لیے بھی انتہائی مہلک ہیں۔ یہاں ہم والدین ہر غلطی کا الزام آج کل کے بچوں پر تھوپ کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔
اور دیانت داری سے اگر اپنا احتساب کریں تو قصور تو سارا کا سارا ہمارا ہی نکلتا ہے، ننھے سے بچے کو کیا خبر ہوتی ہے کہ وہ جب پیدا ہوا تو اس کو کس برانڈ کے کپڑے پہنائے جاتے تھے، کس برانڈ کے برتنوں میں وہ کھاتا پیتا تھا، کس پنگوڑے میں جھولتا تھا اور کس مونٹیسری سے اس نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ یہ تو ہم اسے بعد میں تصویروں، قصوں اور ویڈیوز کی مدد سے باور کرواتے ہیں تاکہ وہ خود کو با اعتماد محسوس کرے۔
اگر کبھی آپ احتساب کا ارادہ کر ہی بیٹھیں تو والدین کی ان تین اقسام میں سے آپ خود کو کس ٹائپ میں پاتے ہیں؟
۱﴾ وہ والدین جن کو اللہ تعالیٰ نے بے حساب دیا ہے اور اعلی ترین بلکہ منفرد اور انوکھی چیز سے کم کو ہاتھ لگانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔
۲﴾ وہ والدین جو بہت کچھ پا لیتے ہیں لیکن سب کچھ نہ پانے کی وجہ سے کبھی نجی زندگی کے حالات کو روتے ہیں کبھی معاشی حالات کو کبھی سیاسی حالات کو اور ہر وقت کسی نہ کسی سے نالاں، شاکی، مشکوک، اور خود کو مظلوم و محروم سمجھتے ہوئے، اپنے احساس کمتری میں مبتلا لڑتے بچوں میں اعتماد بحال کرتے زندگی گزار دیتے ہیں۔
۳﴾ وہ والدین جن کا ہاتھ اتنا کھلا نہیں ہوتا لیکن اولاد کو بہترین سہولیات فراہم کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں، محنت اور حکمت سے اخراجات کو کنٹرول کرتے ہیں، اور چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاتے ہیں، جو مل جائے اس پر شکر اور نہ ملنے پر صبر سے کام لیتے ہیں۔
سو فیصد نہ سہی لیکن اکثر، پہلی قسم کے والدین کی اولاد کو محض دکھاوا ہی نہیں، رعونت بھی ورثے میں ہی ملتی ہے۔
اور اس میں تو کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیے کہ ہم میں سے اکثریت نے اپنے آپ کو والدین کی تیسری ٹائپ میں ڈال کر خود کو کافی سرخرو قرار دے دیا ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر ٹائپ ۲ پر ہی فٹ آتے ہیں لیکن پہلی بات یہ کہ ہم جانتے ہی نہیں اور دوسری یہ کہ مانتے نہیں۔ شو آف کی ایک بہت ہی بنیادی وجہ احساس کمتری ہوتی ہے۔
عموما اسے احساس برتری سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے پیچھے بھی اپنی کسی خامی یا کوتاہی کو چھپانا ہی ہوتا ہے، جس کی وجہ سے لوگ یا تو پرائس ٹیگ کا کام کرتے ہیں کہ فلاں کام اتنے کا کروایا فلاں چیز اتنے کی آئی، یا پھر وہ ازخود برانڈ ایمبسڈر بن جاتے ہیں ابھی آپ نے ازراہ اخلاق کسی چیز کو سراہا نہیں کہ آپ کو لگ پتہ جائے گا کہ کس برانڈ کی چیز ہے، یا کپڑے ہیں یا بیوٹیشن ہے، یا کاسمیٹکس ہیں، یا کار ہے، یا فون ہے، یا کھانا ہے یا برتن ہیں، یا جوتے ہیں۔۔ اور جب والدین کا یہ عیب یا روحانی مرض بچوں میں انتقال کرتا ہے تو دو چند اور سہہ آتشہ ہو جاتا ہے۔ تب معاشرہ اسی اخلاقی مرداری کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے جس سے آج ہم سب پریشان ہیں۔
ظاہر ہے کہ جب وافر آمدنی والے (جانتے ہوئے یا انجانے میں) شو آف کریں گے تب متوسط اور کم آمدنی والے افراد اس کا اثر لیں گے اور اپنے بچوں کو اعتماد دینے کے نام پر کبھی کسی مفلس رشتے دار کا حق مارا جائے گا۔ کبھی کسی نادار ہمسائے کا۔ اور سب سے زیادہ ضروت مند انسان خود کو تصور کرے گا۔
کم فہم افراد صدقہ تو کیا زکوٰۃ جیسے فرض سے بھی جائیں گے۔ ان سے بھی کم فہم افراد ہر سطح پر چوری رشوت دھوکہ اپنا حق سمجھیں گے۔ کیا ان تمام خرابیوں کا بیج ہم ہی نے نہیں بویا؟ برانڈز کے غلبے سے مغلوب ہو کر، ان کو اپنا معبود بنا کر، ان کا ورد کر کر کے، ان کے نام کی مالا جپ کر، ان کی اعلی صفات بیان کر کر کے، خود ان کے سحر میں مبتلا ہو ہو کر، دوسروں کو کر کے، مہندی ہو تو ایسی ہو شادی ہو تو ایسی ہو، دلہن ہو تو ایسی ہو، جوڑا ہو تو ایسا ہو کس نے سکھایا ہے کس کی زبان و بیان سے، عمل سے یہ سب کچھ عام ہی نہی بلکہ واجب ہو گیا ہے؟
کس کی وجہ سے معاشرے میں سادگی سے شادی مشکل ترین اور اس قدر بے حیائی کے واقعات مسلسل بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں؟
نہیں مان رہا نہ دل، خود پر اتنے سنگین الزمات لینے کو، ہمارا المیہ ہی یہی ہے کہ ہم غلطی تو کھلے عام کرتے ہیں لیکن غلط کبھی نہیں ہوتے، آپ فی الحال اس پر ٹھنڈے دل سے غور کریں ریا کاری پر بعد میں بات کرتے ہیں۔