بچوں کی ضد، وجوہات اور علاج ۔ شفقت علی
کہتے ہیں بچوں کے مسائل صرف اُس گھر میں نہیں ہوتے جس میں بچے نہیں ہوتے۔ وگرنہ تو ہرصاحبِ اولاد اور ذی شعور انسان کو ہر روز کسی نہ کسی طور بچوں کی طرف سے نیا مسئلہ ضرور ملتا ہے۔ اِن تمام مسائل میں سرِفہرست اور ہر گھر میں عام پایا جانے والا مسئلہ ہے ضد۔ والدین چاہے جتنا بھی اچھا رویہ اپنا لیں، جتنی بھی نرمی برت لیں یا بچوں سے پیار کرلیں بچے پھر بھی ضد ضرور کرتے ہیں۔ گویا یہ بچوں کا پیدائشی حق ہو۔
ضد کیا ہے؟ ضد ایک جذباتی مسئلہ ہے جسے انسان بطور ردعمل اپناتا ہے۔ ردعمل کی اِس نفسیات کو اگر دبا دیا جائے یا اِس کا بروقت علاج نہ ہو تو یہ ایک نفسیاتی مسئلہ بھی بن سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ والدین اور اساتذہ بچوں میں یہ مسئلہ نوٹ کریں تو فوراً اِس کا علاج ڈھونڈیں۔
ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ چونکہ ہر بچہ منفرد ہوتا ہے لہٰذا بچوں کی کئی اقسام ہوتی ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ضد کی بھی کئی اقسام ہوتی ہیں۔بہرحال ہم یہاں صرف اُن چاراقسام کا تذکرہ کریں گے جو بچوں میں عام (general) پائی جاتی ہیں۔
ضد کی پہلی قسم ہے چڑچڑاپن جو جسمانی کمزوری یا کسی بیماری کی وجہ سے بچے کے مزاج میں پیدا ہوجاتی ہے۔ ایسے بچے اکثر بہانے بنا کر روتے دھوتے رہتے ہیں اور چیزوں کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ چیز مل بھی جائے تو پھر بھی وہ چپ نہیں ہوتے بلکہ کوئی اور وجہ ڈھونڈ کر پھر سے وہی رونا دھونا شروع کر دیتے ہیں۔ ضد کی اس قسم کا علاج یہ ہے کہ بچے کو کسی ماہرِ غذائیات یا بچوں کے ماہر سے چیک کروائیں۔ وہ جو غذا، دوا اور پرہیز تجویز کریں اُسے اپنائیں۔
ضد کی دوسری وجہ ہے بے جا لاڈ پیار اور بچے کو بالکل ڈھیل دے دینا۔ جب بچے کو پتا چلتا ہے کہ اُس کی ہر بات مان لی جاتی ہے اور ہر مطالبہ پورا ہوجاتا ہے تو وہ ضد کا عادی ہوجاتا ہے۔ اُسے معلوم ہوتا ہے کہ بس کچھ دیر کی ضد اُس کی ہر مراد پوری کر دے گی لہٰذا وہ ضد کرتا ہے۔ اِس کا علاج یہ ہے کہ والدین اپنے رویے کو بدلیں۔ اپنے مزاج میں نرمی ضرور لائیں اور اپنا رویہ فرینڈلی ضرور رکھیں مگر فرینکلی نہیں۔ بچے کی جائز خواہش اور مطالبہ ضرور پورا کریں۔ اگر بچہ کسی ایسی چیز کی طلب کرے جو نقصان دہ ہو، مہنگی ہو یا بچے کے لیے موزوں نہ ہوتو بچے کو اُس کا متبادل لے دیں۔ یہاں آپ کو دوسروں کو قائل کرنے کی اپنی مہارت کو استعمال کرنا ہوگا۔ یہ مہارت آپ کو بچے کی ضد ختم کرنے میں بہت مدد دے گی۔
ضد کی تیسری وجہ وقتی (situational) ہوتی ہے یعنی بچہ کبھی کبھی ایسی ضد کرتا ہے۔ مثلاً میں نے آج سکول نہیں جانا، میں نے فلاں شخص سے نہیں ملنا، میں نے یہ کام ضرور کرنا ہے وغیرہ۔ اِس ضد کا علاج بچے کی بات کو سمجھنا اور اُس کی ضد کی وجوہات کو جاننا ہے کہ بچہ اچانک یہ رویہ کیوں اپنائے ہوئے ہے۔ اِن وجوہات کو ڈھونڈ کر اِس ضد کا علاج کیا جاسکتا ہے۔
ضد کی چوتھی قسم ہے مزاج میں اکھڑپن، بدتمیزی اور جارح رویہ جو زیادہ تر بلوغت میں نوٹ کیا گیا ہے۔ یہ مسئلہ ہارمونل بھی ہوسکتا ہے اور نفسیاتی بھی۔ یہ بچوں کے لاشعور میں دبی خواہشات کے پورا نہ ہونے یا ماں باپ کی طرف سے عدم تعاون، پیار محبت اور وقت نہ ملنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ بچے بچپن میں تو سب برداشت کرلیتے ہیں مگر جونہی وہ بڑے ہونا شروع ہوتے ہیں تو وہ والدین اور بڑوں کو کچھ نہیں سمجھتے اور ردعمل میں آکر اپنی مرضی کرتے ہیں۔ کوئی روک ٹوک کی جائے تو بدتمیزی کرتے ہوئے بھی نہیں گھبراتے۔ اِس مسئلہ کا پہلا حل تو یہ ہے کہ کوشش کریں کہ معاملہ یہاں تک نہ پہنچے اور اگر پہنچ جائے تو بچے کو وقت دینا شروع کریں۔ اُس سے گفتگو کریں اور اُس کے جذبات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اُسے پیار محبت سے قائل کریں۔ اِس کام میں دیر لگ سکتی ہے لہٰذا آپ کو مستقل مزاجی اپنانا ہوگی۔ ساتھ میں اللہ سے مدد، رہنمائی اور بچے کی اچھی کی تربیت دعا کرتے رہیں اِس یقین کے ساتھ کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے اور دعا تقدیر کو بدل دیتی ہے۔