بچوں کی تربیت کے کچھ اصول ۔ فرح رضوان
رنگ و نسل کے علاوہ انسان کو اس کے احساسات، جذبات اور رویے دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں. انہی احساسات میں ایک چھٹی حس بھی ہے، جو اگر بر وقت کام آجائے تو قدرت کا عطیہ اور انعام ہے۔ لیکن اس کا بے وقت، بے دھڑک اور بے سبب استعمال خود کو انزایٹی، اور آپ سے منسلک افراد خانہ کو ذہنی کوفت کے گڑھے میں دھکیل دیتا ہے۔ انتہا سے زیادہ احساس ذمہ داری کے مارے والدین، وقت سے آگے دوڑنے کی کوشش میں اس دہشت زدہ ہرنی کی طرح لگنے لگتے ہیں، جو ابھی ابھی دشت تنہائی میں چیتے سے شرف ملاقات حاصل کرکے آئی ہو۔ جبکہ کچھ والدین گاندھی جی کے بندروں سے بہت متاثر نظر آتے ہیں، یعنی "اپنی اولاد کو” برا نہ کہو، برا نہیں دیکھو برا نہ سنو۔ جب کہ ان کے نور چشم، ڈارون کی تھیوری کو خراج تحسین پیش کرتے، بلکہ اس پر ٹھوس دلائل اور ثبوت پیش کرتے دکھائی دیں گے۔
ایسے بچے عموماً کھلونوں سے کھیلنے کے بجاے، انہیں کھولنے پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں.ان کی دلچسپی صوفوں پر بیٹھنے کے بجاے، انہیں بے دریغ جمپنگ کیسل کے طور پر استعمال کرنے میں ہوتی ہے. یقیناً اس میں سراسر والدین کا قصور ہوتا ہے۔ پہلی غلطی تو وہ یہ کرتے ہیں، کہ ہمیشہ اس خوش فہمی میں رہتے ہیں، کہ بڑا ہو کر سیکھ جائے گا، دوسری یہ کہ ٹوکنے یا سمجھانے والوں سے ہمیشہ غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں۔
اگر مالی طور پر دوسروں سے بہتر ہیں تو گمان رہتا ہے کہ لوگ ان سے جلتے، حسد کرتے ہیں۔ اور اگر دنیاوی لحاظ سے کم ہیں تو انتہائی یاسیت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔
کچھ والدین کے نزدیک صرف اچھے گریڈز لانے والا بچہ ہی ہیرو ہوتا ہے، اور وہ ہمیشہ اپنے بچوں کو اس کا طعنہ دیتے رہتے ہیں۔ ان کا گمان ہوتا ہے کہ اس طرح بچوں میں مسابقت کا جذبہ پیدا ہوگا، لیکن! ان میں احساس کمتری یا رقابت کے سوا کچھ جنم نہیں لیتا اور شیطان تو ہر ایک کے ساتھ ہے اس لیے اکثر بچے جو باقی باتوں میں بہت بہتر ہوتے ہیں، بے قدری اور مایوسی کی وجہ سے ضد اور خودسری میں جائے پناہ ڈھونڈتے ہیں۔
ایک ہی والدین کا ہر بچہ مختلف ہوتا ہے، سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنا عقلمندی کا سودا نہیں، ہمارا دین اعتدال کی تلقین کرتا ہے، پیار یا سزا، امید یا خوف، کب کس کے لیے کتنا ہونا چاہیے، والدین کو اس کے لیے ہر وقت دعا اور نوافل کا اہتمام کرنا چاہیے۔ کیونکہ ہر ایک کا دل اللہ کے ہاتھ میں ہے ہر ایک کا ذہن ماحول اور مستقبل بنانے والا وہی ہے رزق و صلاحیت عطا کرنے والا وہی ہے، اس لیے اس سے بنا کر رکھنے کی ضرورت ہے۔
بچے کی پیدائش پر اس کے ایک کان میں اذان دوسرے میں اقامت تو ہم دے دیتے ہیں لیکن عموما ًصف بندی میں کوتاہی کر بیٹھتے ہیں۔ ہم میں سے اکثر خود کو امام کا رتبہ تو دیتے ہیں لیکن نیتیں درست نہیں کر پاتے خود اللہ کے احکامات کی پابندی نہیں کرتے اور بچوں سے گلہ کہ سنتے نہیں ہیں، حکم عدولی کرتے ہیں.
[ جاری ہے ]