بچوں کی تربیت اور ریاکاری ۔ فرح رضوان
ہم سب جانتے ہیں کہ قرآن اور حدیث میں ایسے شخص کو جو محض لوگوں میں اپنی ناموری اور دھاک بٹھانے کے لیے اللہ کی راہ میں کوئی کام کرتا ہے اسے ریاکار کہا گیا ہے، اب خواہ وہ شہید ہو، یا سخی یا عالم جنہوں نے بھی دنیا کی واہ واہ لوٹنے کی خاطر کوئی کام کیا ہو گا ان سے کہا جائے گا کہ تم نے جو چاہا وہ تم نے دنیا میں پا لیا اور انہیں مونہہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا، عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ یہ مرض انسان کے دل میں نہایت خاموشی اور غیر محسوس طور پر داخل ہوتا ہے، جیسے کہ کوئی کالی چیونٹی، کالی سیاہ رات میں، سیاہ پتوں سے ڈھکے کسی کالے پتھر پر چلے تو نہ کسی انسان کو وہ دکھائی دے گی نہ سنائی۔
سوال یہ ہے کہ ریاکار یہ وائرس انسان کے دل میں داخل کس طرح ہوتا ہے تو جواب یہ ہے کہ یہ گل خود پسندی کی کیاری میں کھلتا ہے جس کی آبیاری ایک انسان کے بچپن میں اس کے والدین اور گھر کے بزرگ حوصلہ افزائی اور خود اعتمادی کے نام پر کرتے ہیں۔ مانا کہ کسی حد تک تحسین و حوصلہ افزائی دونوں ہی ضروری ہیں لیکن سوال یہی ہے کہ کس حد تک؟ گزشتہ ادوار میں تو صرف یہی ہوتا کہ کسی اچھے کام پر اسکول، محلے یا خاندان کے افراد کے سامنے ہی کم یا زیادہ واہ واہ ہو جاتی، لیکن اب تو عالم یہ ہے کہ لباس ہو یا خوراک، ملنا جلنا، جھولنا اچھلنا کودنا تمام تر کارگزاریوں کی pictures یا videos والدین سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرتے ہیں اور پھر تین سے چھ سال تک کے معصوم بچوں کو خوش ہو ہو کر انہیں پیار کر کر کے بتایا جاتا ہے کہ اس کے کپڑوں پر، برتھ ڈے پر، رزلٹ پر، بیماری پر، حادثے پر، اداؤں پر کس کس نے کیا کیا کمنٹس دیے ہیں کتنا لائک کیا ہے، اس سے بڑی عمر کے بچے تو نہ صرف خود ہی پڑھنے کے قابل ہو جاتے ہیں بلکہ ان کو داد و تحسین لوٹنے کا ہنر بھی آجاتا ہے۔
اب ایک ایسا معصوم ذہن یہ ماحول اور عادات لے کر جب بڑا ہو گا تب اسے کتنا ہی سمجھایا جائے گا کہ بیٹا ایک مسلمان کی نماز، قربانی، جینا مرنا سب اللہ ہی کے لیے ہے تو کیا اس کا نفس اس ’’ہی‘‘ کو بآسانی ’’بھی‘‘ میں تبدیل نہیں کر دے گا؟ اسے اللہ کے لیے ہی میں اخلاص، اور اللہ کے لیے بھی، میں شرک خفی کس طرح دکھائی دے سکے گا؟ اس مائنڈ سیٹ کے انسان کے لیے قیامت کا ازلی خسارہ تو ہے ہی، فی الحال مختصراً یہ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں اس راہ کے مسافر کے سنگ میل کیا ہیں اور کون سی منزل اس کی منتظر رہتی ہے۔
ایک مسلمان پر آزمائش کسی بھی شکل میں آسکتی ہے، حالات بہترین ہیں تو اس کا شکر، لیکن کبھی اللہ کی رضا کی خاطر جھکنا بھی پڑتا ہے، ٹوٹنا بھی مر مٹنا بھی، تب ایسی نفسیات کے حامل افراد، ایک قناعت پسند مسلم کی طرح الحمدللہ علی کل حال کی سوچ کو، چھو بھی نہیں پاتے، اور اپنے دکھوں، قربانیوں، تکلیفوں کے اشتہار لگا بیٹھتے ہیں۔ نادان دوست تو ویسے ہی ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں سو ان کی بے جا ہمدردیوں اور غیر مفید مشوروں کا فیول لینے کے بعد اس پلیٹ فارم سے ان کی زندگی کی گاڑی خود پسندی کی پٹڑی بدلتی خود ترسی یعنی سیلف پٹی کی ڈگر پر چل پڑتی ہے، اور یہ وہ راستہ ہے جہاں مسلمان ہوتے ہوئے بھی لَا یُکَلِّفُ للّٰ۔ہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَہَا پر سے غیر محسوس طور پر ان کا یقین اٹھ جاتا ہے، یہی نہیں بلکہ اپنے دکھوں کا مداوا اور دکھ دینے والوں کی سزا اسی دنیا میں دیکھنے کی چاہت اس قدر شدت اختیار کر لیتی ہے کہ یہ ان کی انا کا مسلہ بن جاتا ہے اور یہ egomania یعنی abnormal egotism کا شکار ہو جاتے ہیں، یہ جذباتی یا نفسیاتی کیفیت غیر محسوس طور پر تکبر میں مبتلا کر ڈالتی ہے، جس سے ’’میں‘‘ جنم لیتی ہے، اور ایسا ہو نہیں سکتا کہ اس کے بعد انسان کی زبان شیریں رہ پائے، اور زبان کی خرابی کے بعد دوسروں سے تعلقات، درست رہ پائیں۔ لوگوں کی دوری، شدید ذہنی دباؤ کا باعث بن جاتی ہے اور دیگر جسمانی امراض کے ساتھ اکثر ایسے افراد illusions کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔
لیکن اس صورتحال میں میں قصوروار کیا صرف ایک ہی شخصیت ہو گی؟ ہمیں سخت ضرورت ہے کہ سفید سے اورنج ہوتی ستائش و تحسین کی لائن پر کڑی نظر رکھیں اور اورنج سے قبل yellow line پر نہ صرف خود کو روک لیں بلکہ سفید لائن پر واپس آجائیں۔ اور اس ریورس گئیر کو لگانے کا طریقہ بزرگ یہ بتاتے ہیں کہ جب انسان اللہ کے لیے کوئی کام کرے اور اس کا نفس اسے اس بات پر اکسائے کہ کاش لوگ بھی اسے ایسا کرتے دیکھیں تو کتنا سراہیں, تب دعا کے ساتھ ہی یہ تصور بھی کرے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے بے شمار فرشتے نہ صرف اسے دیکھ رہے ہیں بلکہ اس کے گواہ ہونگے۔ اور آج تو گنتی کے کچھ لوگ ذرا سی شاباش ہی دے پائیں گے، لیکن قیامت کے روز تو اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ ان گنت ملائکہ اور انسانوں کے سامنے اسے اس کے، چھپے ہوئے نیک کاموں پر اکرام و انعام سبھی کچھ سوچ سے بڑھ کر ملے گا۔