بچوں کا نادیدہ مدرسہ ۔ فرح رضوان
جس طرح مائکروویو اون میں آگ دکھتی نہیں لیکن کھانا گرم ہوجاتا ہے، یا انٹرنیٹ خود تو دکھائی نہیں دیتا لیکن اس کے ذریعے سے، ایک دنیا دیکھی جا سکتی ہے، بالکل اسی طرح ہمارے بچوں کا ایک نظر نہ آنے والا اسکول ہوتا ہے۔ یہ نہ اردو میڈیم ہوتا ہے نہ انگلش اور نہ اس کے مخصوص اوقات یا نصاب مقرر ہیں، بس زندگی کے بنتے بگڑتے ڈوبتے ابھرتے حالات میں جو بھی مثبت یا منفی رویہ ہمارا ہو، وہی ان کا مدرسہ ہوتا ہے۔
ہمارے یہی رویے بچوں کے ذہنوں میں ہمیں ہیرو یا زیرو بناتے ہیں، اور خود ان کی شخصیت کو emotional intelligence کے ہنر سے لیس یا اس سے محروم کر دیتے ہیں۔ ایک بچہ جب ذرا سمجھدار ہوتا ہے تو اسے دنیا کا علم سکھانے اسکول میں داخل کروا دیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی اس کی دینی تعلیم کا بندوبست بھی کیا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اٹھتے بیٹھتے تہذیب و آداب کی تعلیم اور گھر کے چھوٹے موٹے کام کاج کرنے کی تربیت دی جاتی ہے، یہ سبھی کچھ انہیں پختہ ارادے اور خوب محنت کے ساتھ سکھایا جاتا ہے اور وہ سیکھتے کتنا ہیں؟ اس کا اندازہ لگانے کے لیے یہ جاننا کافی ہوگا کہ آپ ان سے یہ سوال، دن میں کتنی بار کس کس انداز میں پوچھتے ہیں کہ ’’آخر کس زبان میں تمہیں بات سمجھ آئے گی؟‘‘
لیکن جہاں بچہ بات زبان سے نہیں بلکہ والدین کے عمل سے سیکھ رہا ہو اور انسان ہونے کے ناطے جانے انجانے کچھ لغزشیں والدین سے بھی ہو جائیں، تب ہم دل سے چاہیں بھی کہ کاش ہماری فلاں بات بچے نہ سیکھیں یا نہ سیکھتے، لیکن تب ان کے سیکھنے کی صلاحیت دگنی سے زیادہ تیز دکھائی دیتی ہے۔ عموما ًسبھی والدین بچوں کی موجودگی میں اچھے اخلاق و کردار پیش کرنے کا اہتمام کرتے ہیں، لیکن اصل امتحان تو کسی آزمائش میں مبتلا ہونے کے بعد ہی ہوتا ہے۔
آپس میں نا اتفاقی ہو جانے پر دوسرے حریف کو ہرانے سے ہی آپ کی ذہنی تسکین ہوتی ہے؟ یا آپ ہار کر دل جیت لینے میں کمال رکھتے ہیں؟ لوگوں کے کام آنے کا موقع ملے تو ان کے پیٹھ پیچھے غیبت یا منہ پر طعنہ دے کر احسان جتاتے ہیں یا انکساری کے ساتھ نیکی کر دریا میں ڈال کا معاملہ ہوتا ہے؟ جب کسی کم حیثیت انسان سے آپ کا کوئی نقصان ہو جائے تو آپ اپنا غصہ اس پر کس کس طرح نکالتے ہیں اور جب کوئی زور آور آپ کا حق دبا لے، تو آپ اس کی پیٹھ پیچھے اسے کس زبان میں یاد کرتے ہیں؟ آیا ہر کسی سے اپنی بے کسی کی فریاد کرتے ہیں، یا معاملہ اللہ کے سپرد کر کے اسی کو یاد کرتے ہیں؟
معاملہ فہمی یا دانش مندی کی آڑ میں کس قدر جھوٹ یا مبالغے یا خوشامد سے کام لیتے ہیں۔ مہمانوں کے رہتے میں اور ان کے رخصت ہونے کے بعد ان کے بارے میں آپ کے تبصرے کیا ہوتے ہیں؟ اچانک اپنی یا کسی اپنے کی بیماری کا سن کر آپ کا رویہ ہیجان خیز ہو جاتا ہے یا مسبب الاسباب پر ایمان اور حتی المقدور اسباب کا انتظام کرتے ہیں؟ مالی تنگی آجانے پر آپ بات بات پرسیخ پا ہو جاتے ہیں؟ قرض لیتے ہیں؟ یا کم میں گذارہ کر کے مطمئن اور با اعتماد رہتے ہیں؟ کسی سانحے پر بوکھلاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں؟ رنج و الم کو رو رو کر بیان کرتے ہیں یا اللہ کی رضا پر راضی رہنے کا سبق دیتے ہیں؟ کسی دوسرے کے مال و اولاد یا پوزیشن میں ترقی کی خبر پر، آپ کا رد عمل کیا ہوتا ہے؟ آیا اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر واقعی راضی رہتے ہیں؟ یا انہیں منہ دیکھی مبارک دیتے، لیکن دل میں تنگی محسوس کرتے اور یاسیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں؟ کسی کے دعوت میں نہ بلانے پر اس کی خوب خبر لیتے ہیں؟ اگلی بار اس سے بدلہ لے لیتے ہیں یا معاملہ فہمی اور اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہیں؟ نجی محفلوں میں، اخلاقی سطح، نقطۂ انجماد سے گر جاتی ہے یا بردباری کا دامن تھامے رکھتے ہیں؟
زندگی میں لمحہ لمحہ آپ کے طے کردہ یہ تمام تر معاملات صرف کراماً کاتبین ہی نہیں لکھ رہے ہوتے بلکہ گھر میں موجود، بظاہر کھیلتے، پڑھتے، گپیں لگاتے آپ کے ہر عمر کے بچے تمام وقت اپنے اندر جذب کر رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ صرف بد اخلاقی کا مظاہرہ کر رہے ہوں تب ہی بچوں کے ذہن میں آپ ایک تلخ، سخت گیر اور ناپسندیدہ انسان بن کر رہ جائیں گے بلکہ کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ والدین اپنی کسی کمزوری یا بہت نرم دلی اور اعلی اخلاق کی وجہ سے کوئی معاملہ کریں تب بچوں کے ذہن آپ کی حکمت کو سمجھ نہیں پائیں اور وہ اپنے ذہن کے مطابق آپ کو نا سمجھ، بزدل یا کمزور سمجھ بیٹھیں۔