اے کاش ۔ ابویحییٰ
اس تصویر کو دیکھ کر میں تڑپ اٹھا۔ اس میں پنڈی کے حالیہ فساد میں مرنے والے ایک بچے کی لاش کو اس کی ماں دفنانے سے پہلے آخری دفعہ بوسہ دے رہی تھی۔ اس ماں نے اپنا لخت جگر پڑھنے کے لیے بھیجا تھا۔ مگر جب اس کی لاش واپس آئی تو ماں کے جھریوں زدہ چہرے پر پڑی ہر شکن سوال پوچھ رہی تھی کہ میں نے اپنے لال کو مرنے کے لیے تو نہیں بھیجا تھا؟
ایسا لگتا تھا جیسا بچہ ابھی ہی سویا ہو۔ اس کے چہرے پر کوئی سوال نہ تھا۔ اس کا تو وجود ہی سراپا سوال تھا۔ یہ سوال تھا اس قاتل معاشرے سے جو منافق ہوچکا ہے۔ جو دہشت گردی کو گلیمرائز کرتا ہے۔ مگر جب معصوموں کا قتل عام ہوجائے تو سراپا احتجاج بن جاتا ہے۔ جو فساد کی آگ بھڑ کانے والوں کو ہیرو بنا کر پیش کرتا ہے۔ مگر جب ان کی بھڑکائی ہوئی آگ سے عبادت گاہیں جھلس جاتی ہیں تو سراپا ماتم بن جاتا ہے۔
یہ سوال تھا اس معاشرے سے جو اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا عادی نہیں رہا۔ مگر جب اختلاف کرنے والوں کی لاشیں گرا دی جائیں تو اتحاد بین المسلمین کے راگ الاپنے لگتا ہے۔ یہ سوال تھا اس معاشرے سے جہاں نفرت کی بولی بولنے والے سب سے زیادہ مقبول ہیں۔ مگر نفرت کی فصل جب لہو کے رنگ بکھیرتی ہے تو اسے امن اور محبت یاد آجاتی ہے۔ یہ سوال تھا اس معاشرے سے جہاں مرنے والے انسان اور مسلمان نہیں، صرف اپنے فرقے اور اپنے گروہ کے لوگ ہوتے ہیں۔ یہ سوال تھا اس معاشرے سے جہاں قاتلوں کو سب جانتے ہیں، مگر ان کی پردہ پوشی کرنا اپنی دینی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔
اس سوال کا کوئی جواب دے یا نہ دے، مالک دو جہاں ضرور جواب دے گا۔ مگر جب وہ جواب دے گا تو ایسے منافق معاشرے کا نام و نشان صفحہ ہستی سے مٹا دے گا۔ کاش لوگ اس دن کے آنے سے قبل اپنا رویہ بدل لیں۔ اے کاش۔ ۔ ۔