اندھیرے یورپ کی پیروی ۔ ابویحییٰ
اوژیے بوزبک ( Ogier Ghiselin de Busbecq) سولہویں صدی کا ایک یورپی مصنف، مورخ، سیاستدان اور سفارتکار تھا۔ وہ سلیمان عالیشان کے دور حکومت میں سن 1552 تا 1562 قسطنطنیہ کے دربار میں بطور آسٹریائی سفیر تعینات رہا۔ وہاں قیام کے دوران میں اس نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف Turkish Letters لکھی جو عثمانی خلافت اور ترکوں کو سمجھنے کے لیے اس دور کے یورپ کے لیے سب سے اہم ماخذ بن گئی۔
اس نے ترکوں کے حوالے سے یہ بات لکھی ہے کہ ترکوں کو جب کوئی غیر معمولی اہلیت کا آدمی مل جاتا ہے تو وہ اس کی بہت قدر و منزلت کرتے ہیں۔ لیکن ہم (یعنی یورپین) کسی آدمی کی قابلیت کی قدر کرنا نہیں جانتے۔ ہم نہیں جانتے کہ اسے تعلیم و تربیت دینا ہمارا فرض ہے۔ جبکہ ترک قابل آدمیوں سے کام لینا جانتے ہیں۔
بوزبک سلیمان کا ہم عصر ہے جس کے دور میں عثمانی خلافت کا اقتدار مشرقی یورپ سے آگے بڑھ کر وسط یورپ میں آسٹریا تک جاپہنچا تھا اور موسم خلاف نہ ہوجاتا تو اپنی آخری یلغار میں سلیمان ویانا پر قبضہ کرچکا ہوتا۔ احیائے علوم کے جوش سے سرشار جنوبی یورپ جو اس وقت یورپی تہذیب و ثقاقت اور قوت کا مرکز تھا اور جس نے کچھ عرصے بعد مسلمانوں کو اندلس سے ہمیشہ کے لیے نکال دیا تھا، ترکوں کے نام سے لرزتا تھا۔ جبکہ دنیا کے تین براعظموں یعنی ایشیا، افریقہ اور یورپ میں ترکوں کا اقتدار قائم تھا۔
عام طور پر مسلمان ماضی کے اپنے اقتدار کو اپنی قوت و بہادری اور اپنی شکستوں کو اغیار کی سازشوں کا نتیجہ بتاتے ہیں۔ تاہم کسی قوم کے عروج و زوال میں جو اہم ترین اور بنیادی وجہ ہوتی ہے، بوزبک نے اپنے مشاہدے کی بنیاد پر اسے بہت اعلیٰ طریقے پر بیان کر دیا ہے۔ یعنی جو اقوام اپنے قابل لوگوں کی قدر کرتی ہیں تو عظمت حاصل کرتی ہیں اور جو نہ کریں وہ پیچھے رہ جاتی ہیں۔ بوزبک اور سلیمان دونوں جن تہذیبوں سے تعلق رکھتے تھے وہ اس کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ ترکوں کا طریقہ تھا کہ وہ غیر اقوام کے بچوں کو اپنے ہاں لاتے اور انہیں بہترین تربیت دیتے۔ اور پھر ان میں سے بہترین لوگوں کو بلا تعصب اعلیٰ فوجی اور سیاسی عہدے عطا کر دیتے۔ جبکہ یورپ کا بادشاہی اور مذہبی نظام اپنی ذمہ داری سمجھتا تھا کہ ہر باصلاحیت آدمی کو کچل کر رکھ دے اور مخصوص خاندانوں اور ایک خاص طبقے کا اقتدار باقی رہے۔ یورپ میں یہ صورتحال اٹھارہویں صدی تک باقی رہی، مگر اس کے بعد استحصالی طبقات کو شکست ہوگئی۔
آج حال یہ ہے کہ مغربی ممالک ترکوں کی طرح دیگر اقوام کے اعلیٰ ترین صلاحیتوں کے نوجوانوں کو اپنے ہاں لاتے ہیں اور بہترین مراعات دے کر ان کی صلاحیت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ صلاحیت ان کی قوت میں مسلسل اضافے اور ان کے زوال کو روکنے میں بہت معاون ثابت ہو رہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف مسلمانوں اور خاص کر اہل پاکستان کم و بیش اسی جگہ پر کھڑے ہیں جہاں قرون وسطیٰ کے عہد جاہلیت کا یورپ تھا۔ جہاں بادشاہ اور اشرافیہ عام لوگوں کو تعلیم و تربیت تو کیا دیتے الٹا ان سے جینے کا حق چھین رکھا تھا۔ وہ ان کا خون نچوڑتے اور بدترین معاشی اور سیاسی استحصال کا نشانہ بناتے۔ چرچ ہر مختلف آواز کو سنتے ہی ان کے ختم کر دینے کا فرمان جاری کر دیتا۔ یورپ کی مسیحی عدالتیں اہل علم و فن پر بددینی کے فتوے لگا کر انہیں قتل کر رہی تھیں۔ تنقید اور اختلاف کرنے والے ہر شخص کے لیے جینا مشکل تھا۔ ان کی کتابیں جلا دی جاتیں اور وطن میں رہنا دشوار کر دیا جاتا۔ قابل اور بہتر لوگوں کی اسی ناقدری نے یورپ کو صدیوں اندھیرے میں رکھا۔ اگر آج ہم اُسی اندھیرے یورپ کی پیروی کریں گے تو یہی اندھیرا ہمارا انجام ہو گا۔