اصول پسندی ۔ ابویحییٰ
بعض اوقات سڑکوں پر پیش آنے والے حادثات سے لوگوں کو بچانے کے لیے یہ جملہ کہا جاتا ہے کہ تیز رفتاری خطرناک چیز ہے۔ یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن دنیا بھر میں یہ ضابطہ ہے کہ بڑی سڑکوں پر مخصوص احتیاطی تدابیر کے ساتھ تیز رفتاری سے گاڑی چلانے کے لیے سڑک کا ایک حصہ مختص کیا جاتا ہے۔ اسے عام طور پر فاسٹ ٹریک کہا جاتا ہے۔ ہائی وے پر فاسٹ ٹریک پر 120 سے لے کر 140 کلومیٹر کی انتہائی تیز رفتار پر گاڑی چلانے کی اجازت ہوتی ہے۔ جبکہ شہر کی بڑی سڑکوں پر یہ رفتار 60 سے 80 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہوتی ہے۔
ایسے فاسٹ ٹریک پر ہلکی رفتار سے گاڑی چلانا اتنا ہی خطرناک ہوتا ہے جتنا کسی عام سڑک پر تیز چلانا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں جہاں ٹریفک کی ہر دوسری خلاف ورزی عام ہے وہیں سڑکوں کے فاسٹ ٹریک پر ہلکی رفتار سے، مزے لے کر باہمی گفتگو کرتے ہوئے گاڑی چلانا عام رویہ ہے۔ بلکہ اب تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون پر گفتگو ہو رہی ہے اور فاسٹ ٹریک پر خراماں خراماں جا رہے ہیں۔ یہ آہستہ روی احتیاط نہیں ایک سنگین لاپروائی ہے۔ یہ رویہ اس بات کا عکاس ہے کہ ڈرائیور یا تو قانون سے واقف نہیں یا اسے اس کی پروا نہیں۔
یہ رویہ اور اس جیسے دیگر رویے اس بات کے مظہر ہیں کہ ہم لوگوں کی تربیت اصولوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ مزاج اور جذبات کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ ہم زندگی اصول پر نہیں مزاج اور مرضی پر گزارنے کے عادی ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ کہاں ہمیں تیز چلنا ہے اور کہاں ہلکے۔ ہم نہیں سوچتے کہ کہاں بولنا ہے اور کہاں چپ رہنا ہے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ کس معاملے میں اپنی مہارت کی بنا پر ہمیں رائے دینی چاہیے اور کہاں اپنی جہالت کی بنا پر خاموش رہنا چاہیے۔
اصول کے بجائے مزاج کے تحت زندگی گزارنا وہ رویہ ہے جو ہماری بیشتر اجتماعی خرابیوں اور زندگی میں بے سکونی کا ذمہ دار ہے۔ جب تک یہ رویہ نہیں بدلتا ہمارے معاملات کا درست ہونا بہت مشکل ہے۔