آسانی کی نعمت ۔ ابویحییٰ
ایک دفعہ ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ بیسنی روٹی ان کا پسندیدہ ترین کھانا ہے۔ میں نے دریافت کیا کہ بیسنی روٹی وہ کس چیز کے ساتھ کھاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پیاز، لہسن کی چٹنی، اچار وغیرہ کے ساتھ بیسنی روٹی کھانے سے اس کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔
ان صاحب کی اس بات نے مجھ میں عجیب قسم کا اہتزاز (Thrill) پیدا کردیا۔ مجھے یاد آیا کہ بنی اسرائیل کی صحرانوردی کے زمانے میں انہوں نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے ایسے ہی ذائقوں کی فرمائش کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے من و سلویٰ کی نعمتوں کا بکثرت اہتمام کیا، مگر پیاز، لہسن اور مصالحوں کا جو مزہ ہوتا ہے اس سے انہیں اس صحرائی زندگی میں محروم رکھا گیا کیونکہ صحرا میں ان کا قیام اور نتیجتاً چٹپٹے کھانوں سے دوری ان کی تربیت کا ایک لازمی تقاضا تھا۔
ہم پر اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی احسان ہے کہ ہمیں نہ کسی فرعون سے آزمایا گیا ہے اور نہ کھانے کے کسی ذائقے پر کوئی پابندی ہی لگائی گئی ہے۔ قرآن مجید میں سورہ بقرہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کو جو دعا سکھائی تھی اس میں اللہ تعالیٰ کا یہ اصولی فیصلہ بیان ہوا ہے کہ اس امت پر وہ بوجھ نہیں ڈالے جائیں گے جو پچھلی امتوں پر ڈالے گئے اور نہ وہ بوجھ جسے اٹھانے کی ان میں طاقت نہیں۔
یہی وہ پس منظر ہے جس سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آج کے مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کی کتنی نعمتیں ہیں اور انہیں کتنی آسانی اور راحت کے دور میں اللہ کے دین پر عمل کرنا اور اسے دوسروں تک پہنچانا ہے۔ اس کے باوجود یہ ایک المیہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد دینی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں غفلت برتتی ہے۔ وہ شکر گزاری کے بجائے ناشکری کا رویہ اختیار کرتی ہے۔ دوسروں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے بجائے ان سے نفرت میں جیتی ہے۔
کیسا عجیب ہے ہم پر رب کا احسان اور کتنی عجیب ہے ہماری غفلت۔