بھتہ خور اور دعوت دین ۔ ابویحییٰ
میرے ایک قریبی دوست ایک پرجوش اور سرگرم داعی ہیں۔ کچھ عرصے قبل ان کا خاندان ایک بڑے مسئلے کا شکار ہوگیا۔ ان کے سسر ایک کاروباری شخص ہیں۔ ان سے دس لاکھ روپے بھتہ طلب کرلیا گیا۔ مملکت خداداد میں چونکہ یہ عام رواج ہے کہ بھتہ نہ دینے پر متعلقہ شخص کو اطمینان سے قتل کردیا جاتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ اس لیے پورا خاندان ایک زبردست پریشانی میں گھرگیا۔
بہرحال اس مسئلے کا آخری حل یہی تھا کہ بھتہ دے دیا جائے۔ چنانچہ اوپر نیچے کرکے بھتہ دے دیا گیا۔ البتہ اس موقع پر میرے دوست نے ایک کام کیا۔ وہ یہ کہ انہوں نے پیسوں کے ساتھ بھتہ لینے والوں کومیرا ناول ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ بھجوادیا۔ انہوں نے جب یہ بات مجھے بتائی تو میں حیران رہ گیا۔ میری کتاب اصلاح کے جذنے سے بہت سے لوگوں نے دوسرے لوگوں کو دی ہے، مگر اس طرح بھی یہ کتاب دی جاسکتی ہے۔ اس کا مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا۔
مجھے احساس ہوا کہ یہ کتاب کا نہیں اس داعی کا کمال ہے جو کتاب کے پیچھے کھڑا ہے۔ ایک سچا داعی دراصل اپنے رب کی محبت اور عظمت کے احساس سے سرشار ہوتا ہے۔ وہ ہر انسان کو اسی زاویے سے دیکھتا ہے کہ کس طرح اسے رب کا بندہ بنادے۔ عین ایسے حالات میں جب لوگ دوسرے کی زیادتیوں اور ان کے ظلم پر انہیں بددعائیں دے رہے ہوتے ہیں ان سے بدلہ اور انتقام لینے کے منصوبے بنارہے ہوتے ہیں، ایک سچا داعی ان تک دعوت حق پہنچانے کے طریقے سوچ رہا ہوتا ہے۔
یہی وہ سوچ تھی جس نے کروڑوں مسلمانوں کے قاتل تاتاریوں کو اسلام کے قدموں میں لا ڈالا تھا اور یہ وہ سوچ ہے جو اگر آج پیدا ہوجائے تو امریکی، یورپی، روسی اور ہندو غرض ہر وہ قوم جس سے ہمیں شکایت ہے، اسے تھوڑے عرصے میں مسلمان کردے گی۔