اندر کے جانور ۔ پروفیسر محمد عقیل
’’کیا تم نے جانور کو دیکھا ہے‘‘؟ بابا نے اپنے حامد سے سوال کیا۔
’’جی، جی، کئی مرتبہ دیکھا ہے، لیکن آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟‘‘ حامد نے جواب دیا۔
’’اچھا! تم نے کبھی اپنے اندر کے جانور کو دیکھا ہے؟‘‘۔ بابا نے اس کا سوال نظر انداز کرتے ہوئے ایک اور سوال کر دیا۔
’’یہ اندر کا جانور کیا ہوتا ہے مجھے علم نہیں۔‘‘ حامد نے حیرت سے جواب دیا۔
’’بیٹا! کیا ایسا نہیں ہوتا کہ بعض اوقات تم غصے سے چیختے، حسد سے انگلیاں چباتے، نفس کی ناجائز خواہش پوری کرتے اورحرص و ہوس کا شکار ہوتے ہو؟‘‘
’’جی ہاں! ایسا تو اکثر ہوتا ہے۔‘‘ حامد نے کہا۔
’’یہی تو اندر کا جانور ہے جو ہم پر حاوی ہوجاتا ہے اور ہماری شخصیت جانور جیسی ہوجاتی ہے۔ بیٹا، ہم سب کے اندر بے شمار جانور چھپے ہوئے ہیں، یہ جانور ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھے جاسکتے بس ان کے لئے ہمیں آنکھیں بند کرکے اندر جھانکنا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اندر کیا کیا موجود ہے‘‘۔ بابا نے تفصیل سے بیان کیا۔
انسان کی اصل شخصیت کیا ہے؟ اس پر بلامبالغہ لاکھوں صفحات تحریر ہوچکے ہیں لیکن پھر بھی انسان کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ پایا۔ علم نفسیات کی تشریح علم کیمیا سے مختلف ہے تو روحانی علوم کے ماہرین مادی علوم کے پنڈتوں سے اختلاف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جب ہم اس موضوع پر قرآن سے رجوع کرتے ہیں تو قرآن قطعیت کے ساتھ یہ بتاتا ہے کہ انسان کی اصل شخصیت کیا ہے؟ یہ شخصیت انسان کے ظاہر اور اور باطن کا مجموعہ ہے۔ انسان کے ظاہر سے مراد چہرہ، ہاتھ پاؤں، رنگت، چال، ڈھال وغیرہ ہے۔ دوسری جانب باطن سے مراد انسان کی اچھی اور بری صفات ہیں۔
ہم جب اپنے آپ کو آئینہ میں دیکھتے ہیں تو چہرہ، ڈیل ڈول اور ظاہری جثہ سامنے آتا ہے۔ سطحی قسم کے لوگ اسے ہی انسان کی اصل شخصیت سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں ہمارے اندر بھی ایک شخصیت موجود ہے جسے ہم نفس، خودی، اپنا آپ، میں، روح، دل یا کسی بھی نام سے منسوب کرسکتے ہیں۔ اس باطن کی شخصیت کا بھی ایک چہرہ ہوتا ہے، اس کے ہاتھ پاؤں، جسم، بو، زبان سب ہوتے ہیں۔ اس باطنی جسم پر لگی ہوئی غلاظت اتنی ہی بری ہوتی ہے جتنی ظاہری بدن پر لگی ہوئی کیچڑ۔ اس باطنی جسم کی غلاظتیں تکبر، نفس پرستی، تعصب، منفی سوچ، حسد، کینہ، انتقامی نفسیات اور خدا کی نافرمانی ہیں۔ دوسری جانب اس وجود کا پاکیزہ لباس عجز و انکساری، نفس پر کنٹرول، مثبت سوچ، درگذر کی نفسیات اور خدا کی فرماں برداری ہے۔
اگر کوئی شخص گندگی میں رہنے کا عادی ہوجائے تو اسے اپنے ظاہری جسم کی گندگی کا احساس نہیں ہوتا۔ وہ میل کچیل کو گوارا کرلیتا، بدبو کے ساتھ گذارا کرتا، دھول مٹی میں اٹھتا بیٹھا اور گندگی کو اپنا لیتا ہے۔ کچھ عرصے بعد وہ ان سب باتوں کا اتنا عادی ہوجاتا ہے کہ گندگی اور پاکیزگی میں تمیز ہی کھو بیٹھتا ہے۔
بالکل یہی معاملہ اس شخص کے ساتھ بھی ہوتا ہے جو اپنے باطن کو گندگیوں سے صاف نہیں رکھ پاتا۔ جب اس کا باطنی وجود ان غلاظتوں کا عادی ہوجاتا ہے تو پھر فحش مناظر دیکھنے کی گندگی محسوس نہیں ہوتی، پھر جھوٹ بولنے پر زبان لڑکھڑاتی نہیں، پھر عزت لوٹتے وقت ضمیر کی سرگوشی بھی نہیں ابھرتی، پھر خدا کی نافرمانی پر ہلکی سی ندامت بھی نہیں ہوتی۔ پھر انسان کے اندر کئی جانور پیدا ہوجاتے ہیں جو اس کے وجود کا احاطہ کر لیتے ہیں۔ یہ جانور غصہ، شہوت، نفس پرستی، حسد، کینہ، انتقام، قانون شکنی، خود غرضی، انارکی اور بے ہنگم سوچوں کی شکل میں نمودار ہوتے اور آہستہ آہستہ انسان کو جانور بنا دیتے ہیں۔ ایسے انسان کا ظاہری وجود تو صاف ستھرے انسان کی شکل کا ہوتا ہے لیکن اس کا باطن جانوروں کی خصلتوں کی بنا پر پاکیزگی کھو چکا ہوتا ہے۔
اس دنیا میں کسی شرفا کی تقریب میں ایسے شخص کا داخلہ ممنوع ہے جس کا منہ کیچڑ میں لتھڑا ہو، جس کے بال دھول مٹی سے اٹے ہوئے ہوں، جس کے جسم پر میل کچیل کی تہیں چڑھی ہوں۔ بالکل ایسے ہی آخرت میں خدا کی جنت میں ان لوگوں کا داخلہ ممنوع ہے جن کا باطنی وجود ناپاکی و غلاظت سے لتھڑا ہوا ہو۔