انانیت، نفسانیت اور روزہ ۔ ابویحییٰ
انسان جنت کی راہ کا ازلی مسافر ہے۔ روز ازل جب اس نے بار امانت کو اٹھانے کا فیصلہ کیا تو اس مشقت کو جھیلنے کا اصل مقصد جنت کی ابدی بادشاہی کو حاصل کرنا تھا۔ زمین سے لے کر آسمان تک پھیلی ہوئی خدا کی عظیم سلطنت میں حکومت کرنے کا پروانہ حاصل کرنا تھا۔ یہ وہ اعزاز تھا جو نہ فرشتوں کو ملا نہ جنوں کو۔ نہ آسمان اس سفر میں اترنے کی ہمت کرسکا نہ زمین۔ نہ پہاڑ اس بلندی کو پہنچ سکے اور نہ سمندر اس کا حوصلہ کرسکا۔
جنت کی یہ منزل ایک سیدھے رستے پر واقع ہے۔ سیدھا راستہ یہ ہے کہ زندگی کے ہر موڑ پر جہاں رب کا حکم آئے گا، انسان وہی رخ اختیار کرے گا جو رب کو پسند ہوگا۔ اس سیدھے رستے میں اصل رکاوٹ انسان کے اندر سے آتی ہے۔ اور دو پہلوؤں سے آتی ہے۔ ایک یہ کہ انسان اپنے نفس کے تقاضوں، مفادات اور خواہشات کا اسیر ہوجاتا ہے۔ دوسری یہ کہ انسان انانیت کا شکار ہوکر سچائی کا انکار کر دیتا ہے۔ چنانچہ ان دو پہلوؤں سے انسانوں کی مدد کے لیے اللہ تعالیٰ نے رمضان کا مہینہ مقرر کیا جس میں دو عبادات ان دونوں مسئلوں کا علاج کرتی ہیں۔ شرط یہ ہے کہ انسان ان عبادات کو ان کی حقیقی روح کے ساتھ ادا کرے۔ ایک روزہ جو فرض اور دوسرا نفل نماز جس کا قیام بھی فضیلت اور اجر کا باعث ہے۔
روزہ انسان کو نفس اور اس کے تقاضوں کے خلاف جنگ کرنا سکھاتا ہے۔ یہ انسان کو بتاتا ہے کہ انسان کا ارادہ اتنا طاقتور ہے کہ وہ اپنے آپ سے لڑ کر اپنی بنیادی ضرورت بھوک اور پیاس اور اپنی بنیادی خواہش یعنی میاں بیوی کے تعلق سے خود کو روک سکتا ہے۔ جو انسان ان جائز اور ضروری چیزوں سے خود کو روکنے کی شعوری تربیت کر لے، کیسے ممکن ہے کہ وہ رب کی نافرمانی کے ان کاموں میں مبتلا ہو جائے جو نہ ضروری ہوتے ہیں اور نہ عقل و فطرت ان کی اجازت دیتی ہے۔ اس کے ساتھ نماز اور خاص کر رات کی نفل نماز جو کہ عام نمازوں سے طویل ہوتی ہے وہ انسان کی انانیت کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
نماز دراصل اللہ کی کبریائی بیان کرنے کا نام ہے۔ اللہ اکبر اس کا سب سے زیادہ دہرایا جانے والا کلمہ ہے۔ یہ اعتراف اور جھکاؤ کا نام ہے۔ سورہ فاتحہ میں اللہ کی نعمتوں کا بار بار اعتراف کر کے اور قیام، رکوع، سجدے اور قعدے میں ہر ہر پہلو سے جھکے رہنے کی تربیت انسان میں عام زندگی میں بھی اعتراف اور جھکے رہنے کی صفت پیدا کرتی ہے۔ یہی دو چیزیں انسان کی انا کو قابو میں رکھتی ہیں۔
انسانی انا کے دو بنیادی مسائل ہیں۔ ایک یہ کہ یہ عتراف نہیں کرتی۔ اپنی غلطی ہو یا کسی دوسرے کی خوبی اور بڑائی کا اعتراف کرنا ہو، انسان ان دونوں موقعوں پر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ آدمی بڑی سے بڑی غلطی کا ارتکاب کرتا ہے اور جب توجہ دلائی جاتی ہے تو بجائے غلطی ماننے کے وہ چند بے معنی الفاظ بول کر اور بے وقعت تاویل کر کے اپنی غلطی ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔ یہ انا کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال شیطان ہے جس نے نہ صرف اللہ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا بلکہ جب اسے توجہ دلائی گئی تو اس نے اپنی غلطی ماننے سے صاف انکار کر دیا۔
اسی طرح انسان دوسروں کی خوبی اور بڑائی کا اعتراف کرنے میں ہمیشہ بخل سے کام لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر لوگ اپنے زمانے کے بڑے سے بڑے آدمی کو معمولی آدمی سمجھ کر اس کی غلطیاں اور کمزوریاں نکالتے رہتے ہیں اور اس کی خوبیوں کو نہیں سراہتے۔ اسی طرح ایک ہی شعبہ کے لوگ اپنے سوا دوسروں کی خوبی کا کم ہی اعتراف کرتے ہیں۔ اس کے بجائے انسان ہمیشہ خود کو نمایاں کرنے، اپنی تعریف سننے اور اپنے آپ کو اہم سمجھنے کو پسند کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی شیطان کا طریقہ ہے جس نے آدم کا اعتراف کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کا انجام اللہ کی ناراضی اور ابدی جہنم ہے۔ رمضان میں روزہ اور نماز دراصل انھی دو کمزوریوں سے نجات دلا کر انسانوں کو جہنم سے بچاتے اور جنت کی راہ کا مسافر بناتے ہیں۔