اللہ کی اطاعت اور رسول کی اطاعت ۔ ابویحییٰ
قرآن مجید میں جگہ جگہ مسلمانوں کو ایک حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔ اس کا مفہوم عام طور پر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اللہ کی اطاعت سے مراد قرآن کریم ہے اور رسول کی اطاعت سے مراد سنت کی پیروی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن و سنت ہی دین کے ماخذ ہیں جہاں سے دین سمجھا اور بیان کیا جاتا ہے، تاہم ہمارے نزدیک یہ آیت اس امر کا بیان نہیں کرتی۔ قرآن ہو یا سنت دونوں کا سرچشمہ دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات و الا صفات ہے۔ اللہ کو کسی نے نہیں دیکھا۔ اس کا پیغام کسی عام انسان پر نہیں اترا۔ یہ دراصل انبیا علیھم السلام ہی کی ہستیاں ہوتی ہیں جن کو مخاطبہ الٰہی کے شرف سے نوازا جاتا ہے اور وہی اللہ کی طرف سے مخلوق سے کلام کرتے ہیں۔
چنانچہ یہی وہ بات ہے جسے قرآن مجید میں کئی مقامات پر اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول اور نبی لوگوں کے درمیان بھیجتے ہیں اور پھر یہی مقدس شخصیات اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچاتے ہیں۔ وہ جس کو قرآن کہہ دیں وہ قرآن بن جاتا ہے۔ جس کو دین کہہ دیں وہ دین بن جاتا ہے۔ جس کو سنت بنا دیں وہ سنت بن جاتی ہے۔ جس کو حلال کہہ دیں وہ حلال اور جس کو حرام کہہ دیں وہ حرام قرار پاتا ہے۔ چنانچہ اس دنیا میں انسان اصل میں انبیاء علیھم السلام ہی کی پیروی کے پابند ہیں۔ ایسے میں رسول کی اطاعت کے ساتھ اللہ کی اطاعت کے ذکر کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔
اگر یہ بات درست ہے تو سوال پھر یہ ہے کہ رسول سے قبل اللہ کی اطاعت کے ذکر کی کیا ضرورت ہے۔ ہمارے نزدیک دراصل اس طرح کی آیات جس بنیادی اور باریک چیز کو نمایاں کرتی ہیں وہ یہ ہے کہ حضرات انبیا علیھم السلام نبی ہونے کے ساتھ ساتھ انسان ہوتے ہیں۔ وہ اپنے معاشرے کے ایک بزرگ بھی ہوتے ہیں۔ اپنے ماننے والوں میں ان کی حیثیت ایک سردار کی ہوتی ہے اور بارہا وہ اقتدار پر بھی فائز رہے۔
نبی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ان سب حیثیتوں میں کلام بھی کرتے ہیں۔ حکم بھی دیتے ہیں۔ لوگوں کو بعض امور سے منع بھی کرتے ہیں۔ بہت سے فیصلے بھی کرتے ہیں۔ رسول کی اطاعت سے قبل اللہ کی اطاعت کا ذکر دراصل یہ بتاتا ہے کہ ان تمام حیثیتوں میں وہ حجت نہیں۔ بلکہ ان کی اطاعت اسی صورت میں لازمی ہے جب وہ کسی حکم کو اللہ کے حکم کے طور پر بیان کریں۔ گویا کہ کسی بات کو وہ جب دین بنا کر پیش کریں تو اس کی اطاعت لازمی ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اس دنیا میں اللہ کی ہستی ہی وہ ذات ہے جو اصلاً ہر اطاعت کا مرجع اور ماخذ ہے۔ اس کے سوا کسی کو مستقل بالذات ایسا کوئی اختیار حاصل نہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہو تو پھر یہ شرک ہے۔
اس بات کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعبیر نخل کے مشہور واقعے میں خود سمجھایا ہے۔ ہجرت کے بعد آپ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے وہاں کے لوگوں کو کھجوروں کی پیوند کاری کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ تم یہ نہ کرتے تو بہتر تھا۔ لوگوں نے آپ کی بات پر عمل کیا تو فصل کم آئی۔ لوگ یہ مسئلہ آپ کے پاس لے گئے تو آپ نے فرمایا کہ میں تو ایک بشر ہوں۔ جب دین کے بارے میں تمھیں کسی بات کا حکم دوں تو اسے قبول کرلو اور اگر میں اپنی رائے سے کسی بات کا حکم دوں تو میں بشر ہوں۔ اسی واقعے سے متعلق ایک دوسری روایت کے مطابق آپ نے فرمایا کہ جب میں اللہ کی طرف منسوب کر کے کوئی بات کروں تو اسے لازماً پکڑ لو، (مسلم رقم:2362-2361)۔
چنانچہ ہمارے نزدیک رسول کی اطاعت کے ساتھ اللہ کی اطاعت کا ذکر بڑے لطیف طریقے سے یہ واضح کرتا ہے کہ حضور کی اطاعت دین کے معاملات ہی میں لازم ہے۔ آپ کا لباس، غذا، رہن سہن، تمدنی معاملات وغیرہ میں آپ کی پیروی کسی شخص کا اظہار محبت اور ذوق تو ہو سکتا ہے، مگر ایسی کوئی چیز دین نہیں ہوتی، نہ بطور دین اس کی اطاعت کی دعوت دینا درست ہے۔