اعتکاف ۔ ابو یحیی
اعتکاف روزے کی عبادت کا منتہائے کمال ہے۔ رمضان میں روزہ رکھ کر انسان طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانا پینا اور ازدواجی تعلق کو چھوڑ دیتا ہے۔ لیکن اعتکاف میں انسان آگے بڑھتا ہے اور ان پابندیوں کے ساتھ کئی اور پابندیاں خود پر عائد کرلیتا ہے۔ اب انسان اپنا گھر، گھر والے اور کاروبار سمیت ساری دنیوی دلچسپیاں چھوڑ کر مسجد میں آبیٹھتا ہے۔ پہلے بیوی سے تعلق زن و شو دن میں چھوڑا تھا اب رات میں بھی اس سب سے بڑی انسانی خواہش سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ پہلے لوگوں سے مل لیا جاتا تھا اور اب سب سے کٹ کر انسان خدا کا ہو رہتا ہے۔ یوں ایک بندہ مومن سوائے زندگی کی ایک نشانی یعنی رات کے وقت کھانے پینے کے علاوہ پوری دنیا اور دنیا داری کو چھوڑ کر اللہ کے گھر آبیٹھتا ہے اور اپنی صبح و شام اس کی یاد اور اس کی بندگی میں گزارنے لگتا ہے۔
اعتکاف کی پابندیاں انسان کو احساس دلاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عنایات اتنی زیادہ ہیں کہ حق یہی ہے کہ زندگی اسی طرح گزاری جائے۔ مگر یہ اس کریم کا کرم ہے کہ اس نے اس عبادت کو لازم کیا اور نہ انسان کو مجبور کیا کہ وہ عام حالات میں اللہ کی رضا کے لیے اپنا کھانا پینا، بیوی بچے، ازدواجی تعلق اور کاروبار، سماجی تعلقات اور اسباب دنیا داری کو چھوڑ دے۔ اس کا مطالبہ بس اتنا ہے کہ ان سب میں رہو پر مجھے نہ بھولو۔
تم شادی کرو، گھر بناؤ، کاروبار اور ملازمت کرو، بیوی اور بچوں کی خوشیاں دیکھو، دنیا اور اس کی دلچسپیوں سے بھی بقدر ضرورت محظوظ ہو، مگر مجھے یاد رکھو۔ میری نافرمانی نہ کرو۔ اس لیے کہ یہ دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں۔ جس طرح رمضان اور اعتکاف کے ایام گزر جاتے ہیں۔ یہ دنیا کی زندگی بھی گزر جائے گی۔ پھر تم لوٹ کر میرے ہی پاس آؤ گے۔ ایسا نہ ہو کہ اس روز تمھارے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ نہ ہو۔ یہی اعتکاف کا اصل درس ہے۔