ابدی روزہ دار : سنگل مرد و خواتین اور سپیشل افراد سے متعلق کچھ باتیں ۔ خطیب احمد
میں پنجاب یونیورسٹی سے پاس آؤٹ ہوں۔ دس سال مجھے یونیورسٹی چھوڑے ہوئے ہوگئے۔ میں اپنے دس سال تک کے سینیئرز اور آج تک کے اپنے شعبے خصوصی تعلیم میں زیر تعلیم جونئیرز سے فعال رابطے میں ہوں۔ سو طلباء کی مارننگ ایوننگ کلاس ہوتی ہے۔ جس میں 80 سے 90 فیصد لڑکیاں ہوتی ہیں۔ میرے سینئیرز میں ہر سیشن کی ایک دو لڑکیاں ایسی ہیں جن کی شادی ہی نہیں ہوئی نہ اب ہوتی نظر آتی ہے۔ کئیوں کی تو ایک بار منگنی تک نہیں ہوئی۔ ان میں اکثر کی عمریں 40 کراس کرچکی ہیں۔ طلاقیں تو ہر کلاس میں 2 سے 5 تک ہیں۔ میں صرف ان کی بات کروں گا جن کی شادی ہی نہیں ہوئی۔
میرے آس پاس اور بھی بہت ہی لڑکیاں ہیں جن کی عمریں معاشرے کے قائم کردہ مادی اعتبار سے شادی کی عمر سے تجاوز کرچکی ہیں۔ ہر ممکن کوشش کے باوجود اپنے لیول سے بہت نیچے آکر بھی ان کی شادی نہیں ہوسکی اور ہونے کے کوئی امکان نہیں نظر آتے۔
ایک بات کو ذہن میں رکھیں کہ ضروری نہیں شادی ہر حال میں ہو ہی ہو۔ ابویحییٰ صاحب مشہور زمانہ کتاب ”جب زندگی شروع ہوگی“ کے مصنف اس صورت حال کو ”ابدی روزہ“ کہتے ہیں۔ جن بہنوں کی شادی نہیں ہوئی وہ پاکباز رہیں۔ معاشی خود کفیل ہوں اور اپنے ساتھ رہنے والے بہن بھائیوں و دیگر خاندان کے افراد کے معاملات میں باعث خیر بنیں نہ کہ بلاوجہ کی روک ٹوک اور ان کے لیے باعث پریشانی۔ ان شاء اللہ میرے اللہ کے پاس آپ کے لیے بہت بڑا اجر ہوگا۔ لوگوں کی باتوں سے تنگ آکر کسی ایسی جگہ شادی نہ کریں جہاں آپ کا کا کوئی جوڑ نہیں۔ تنہا رہ لیں اسلام میں یہ حرام نہیں ہے۔
بے شمار لڑکے بھی ہیں جن کی کسی بھی وجہ سے شادی نہیں ہوسکی۔ میرے وہ بھائی بھی پاکباز رہیں۔ کسی سوشل سروس میں خود کو انوالو کریں۔ اپنی زندگی کو ایک بڑے مقصد میں لگائیں۔
بے شمار سپیشل افراد بھی اسی ضمن میں آتے ہیں۔ معمولی معذوری کے حامل فرد کو بھی معذوری کا سن کر ہی رد کر دیا جاتا ہے۔ اور ایسا ان کے ساتھ 10 سے 20سال تک ہوتا رہتا ہے۔ تھک ہار کر وہ شادی کی خواہش دل سے نکال دیتے ہیں۔ تب تک ان کی شخصیت اس حد تک مجروح ہوچکی ہوتی، ان کی روح اس قدر زخمی ہوچکی ہوتی ہے کہ جس کا اندازہ کسی دوسرے فرد کے لیے لگانا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ وہ لوگ اپنے اہل خانہ سمیت ہم سب انسانوں سے ہمیشہ کے لیے ناراض ہوجاتے ہیں۔
میں لڑکوں اور لڑکیوں نارمل اور سپیشل دونوں گروہوں سے کہوں گا۔ آئے روز خود کو مادہ پرستانہ سوچ کے حامل لوگوں سے رد نہ کروائیں۔ آپ کو اپنی زندگی میں شادی اب نظر نہیں آتی تو والدین بہن بھائیوں پر بوجھ بننے کے بجائے مالی طور پر مستحکم ہوں۔ اور دنیا کے بڑے مسائل جیسے غربت، صاف پانی کی فراہمی، جنگلات کی کمی، تعلیم تک رسائی کا نہ ہونا، آوازوں کی آلودگی، فضائی آلودگی کے خاتمے، ایمان و اخلاق کی دعوت، اللہ کے دین کی کسی بھی سطح پر نصرت کرنے میں اپنی باقی ماندہ عمر کو ایک ٹریک میں گزارنے کا پلان کریں۔
ان شاء اللہ اس دنیا سے جانے کے وقت آپ کے پاس ایک خوشی ہوگی کہ آپ نے زندگی میں کچھ کیا ہے۔ اور میرا مالک آپ کو دنیا میں ساری زندگی کے لیے رکھے گئے اس ابدی روزے کا اجر ضرور دے گا۔ کہ آپ نے اپنی کوشش تو کی مگر اس کی رضا پر راضی ہو کر اس کی مخلوق کی خدمت میں زندگی گزار دی۔
خود کو خاندان کو رشتہ داروں کو معاشرے کو معاشرے کے رسوم و رواج کو اپنی شادی نہ ہونے کا قصوروار قرار دے کر آپ ساری عمر کڑھتے رہیں تو کیا حاصل ہوگا؟ خود ترسی میں مبتلا ہو کر کسی سے دھوکا کھائیں گے تو زندگی مزید تلخ ہوگی۔ شکایتوں اور دوسروں کے لیے نفرتیں دل میں رکھ کر آپ تلخ اور کڑوے ہو کر اپنا ہی نقصان کریں گے اور کسی کا نہیں۔
کچھ لوگوں کے نصیب میں شادی ہوتی ہی نہیں ہے۔ یہ ازل سے ہوتا آیا ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ اسے قبول کیجیے اور اپنے آس پاس ایسے لوگوں اور ان کے خاندانوں کو اس سچ کو قبول کرنے کی ترغیب دیجیے۔