صبر اور معقولیت ۔ ابویحییٰ
پچھلے دنوں ایک دانشور نے پاکستانی قوم کا مرثیہ پڑھتے ہوئے لکھا کہ ہم کچھ چیزیں سیکھنے کے لیے بنے ہی نہیں ہیں۔ ان میں سے ایک صبر ہے اور دوسری معقولیت۔ ہمارے نزدیک یہ خرابی ہماری قوم سے زیادہ ان لوگوں کی کمزوری ہے جو قوم کی تربیت کے مقام پر فائز رہے ہیں۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہماری قوم کو عشروں سے اس بات کی تعلیم دی ہی نہیں گئی کہ صبر کیا ہوتا ہے اور معقولیت کس چیز کا نام ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں جذباتی انداز فکر کو پروان چڑھایا گیا ہے۔ جبکہ صبر اور معقولیت ہی وہ راستے ہیں جو دنیا و آخرت میں کامیابی کے ضامن ہیں۔
صبر اور معقولیت کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید ان دونوں کی تلقین سے بھرا ہوا ہے۔ یہ دونوں اعلیٰ ترین انسانی رویے ہیں جو کسی جانور میں نہیں پائے جاسکتے۔ یہ دو چیزیں اتنی بڑی ہیں جن کو جاننے کے بعد کوئی سچا مسلمان اور باشعور انسان ان چیزوں کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دے سکتا۔ پھر اپنی ذات میں بھی یہ اعلیٰ ترین اوصاف ہیں۔
صبر بزدلی کا نہیں بلکہ حقیقت پسندی کا نام ہے۔ یہ اپنی کمزوری کو جان کر خارج میں کوئی اقدام کرنے کے بجائے اس کمزوری کو دور کرنے کا نام ہے۔ یہ نامساعد حالات میں بھی اعلیٰ اصولوں پر قائم رہنے کا نام ہے۔ اسی طرح معقولیت علم و فہم کے بطن سے پھوٹتی ہے۔ یہ جلد بازی، سطحیت اور جذباتیت کی دلدل میں کودنے کے بجائے حکمت، بصیرت، دانائی اور سمجھ بوجھ کے ساتھ اقدام کرنے کا درس دیتی ہے۔ یہ جذبات کی رو میں بہہ کر رائے قائم کرنے کے بجائے تفکر اور تدبر کی دعوت دیتی ہے۔
اگر ہمیں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ترقی کی راہ پر ڈالنا ہے تو صبر اور معقولیت کی تلقین کرنے والوں کی بات سننا ہوگی۔ اس کے سوا ہر دوسرا راستہ تباہی کی طرف جاتا ہے۔