ناقابل معافی جرم ۔ ابویحییٰ
قرآن مجید کی سورہ نساء میں دو مقامات پر یہ بات بیان ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ بس اس بات ہی کو معاف نہیں کریںگے کہ ان کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے۔ اس کے سوا وہ جس گناہ کو چاہیں گے اور جس شخص کے لیے چاہیں گے معاف کر دیں گے۔
قرآن مجید کے اس بیان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شرک کرنا کس درجہ کا قابل نفرت کام ہے۔ اس کے ساتھ ہی قرآن مجید شرک کے خلاف دلائل کی بڑی تفصیل کرکے یہ بتاتا ہے کہ اس کی کوئی عقلی یا فطری بنیاد نہیں ہے۔ قرآن مجید یہ بھی بتاتا ہے کہ شرک کا سبب صرف اور صرف لوگوں کا یہ تعصب ہے کہ انھوں نے اپنے آباؤ اجداد کو شرک کرتے ہوئے ہی پایا۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو اصل ناقابل معافی جرم تعصب ہے جو شرک کا باعث بنتا ہے۔
تعصب کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے ماحول یا حالات کی بنا پر کسی چیز سے مانوس ہوجائے اور پھر کسی طور اس چیز کو چھوڑنے پر راضی نہ ہو۔ چاہے علم و عقل کے کتنے ہی دلائل سے اس کی غلطی واضح کر دی جائے۔ اس سے آگے بڑھ کر تعصب انسان کو ایسا اندھا کر دیتا ہے کہ انسان کوئی دوسری بات سننے کے لیے تیار ہوتا ہے اور نہ یہ امکان تسلیم کرنے کو تیار ہوتا ہے کہ اس کی بات غلط بھی ہوسکتی ہے۔ وہ ہر معقول بات کے جواب میں ایک سطحی بات بول دیتا ہے۔
اس تفصیل سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ تعصب کتنا خطرناک مرض ہے۔ یہ انسان کے اندر سچائی کو دیکھنے، ماننے اور اسے قبول کرنے کی استعداد ہی ختم کر دیتا ہے۔ تعصب کا یہ مرض صرف انبیا کے منکرین ہی میں نہیں ہوتا بلکہ یہ ہر انسان کا مسئلہ ہے۔ اس لیے کہ اپنے اردگرد کے ماحول سے مانوس اور متاثر ہوجانا ایک عام انسانی وصف ہے۔ اس کی سادہ ترین مثال یہ ہے کہ کسی انسان کے جسم سے اٹھنے والی پسینے کی ناگوار بو اسے محسوس نہیں ہوتی۔ البتہ دوسرے لوگ اسے فوراً محسوس کرلیتے ہیں۔ یہی معاملہ ان نظریات اور خیالات کا ہے جو چاہے کتنے ہی غلط اور بے بنیاد کیوں نہ ہوں، لوگ پوری ڈھٹائی کے ساتھ انھیں مانتے ہیں اور ان کے خلاف ایک لفظ نہیں سن سکتے۔
تعصب کے حوالے سے یہی وہ خوفناک حقیقت کہ یہ ہر انسان میں پایا جاسکتا ہے، ایک بندہ مومن کو لرزا دینے کے لیے بہت ہے۔ بندہ مومن جانتا ہے کہ جلد یا بدیر اس کا سامنا رب العالمین سے ہوگا۔ خدا کے غضب اور جہنم کو برداشت کرنا ایک ناممکن کام ہے۔ خدا کا یہ غضب سب سے بڑھ کر ان لوگوں پر ہوگا جو اپنے تعصبات کے مریض رہے ہیں۔ اس لیے کہ تعصب کے بعد انسان ہر سچائی کا انکار کر دیتا ہے اور ہر ظلم و زیادتی کو جائز سمجھنے لگتا ہے۔
ہم اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو آج ہم ایسے ہی فرقہ وارانہ اور سیاسی تعصبات کے دور میں زندہ ہیں۔ کوئی شخص اپنے تعصب کے خلاف ایک لفظ سننے کو تیار نہیں۔ کتنی ہی بڑی دلیل سامنے آجائے لوگ اطمینان سے دو بے معنی الفاظ بول کر یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے سچائی کو رد کر دیا۔ لوگ اپنے فرقے اور اپنے سیاسی رہنما کی ہر غلطی کی کوئی نہ کوئی جھوٹی تاویل کرلیتے ہیں۔ وہ مخالف کی ہر درست اور سچ بات کو چند خوبصورت الفاظ بول کر ہوا میں بکھیر دیتے ہیں۔ کوئی شخص کتنی ہی بڑی سچائی لے کر آئے، وہ صرف زبان سے ایک جملہ نکالتے ہیں کہ یہ آدمی فلاں گروپ کا ہے اس کے بعد متعصب لوگ سچائی کے اعتراف کے لیے گونگے، اسے سننے کے لیے بہرے اور اسے دیکھنے کے لیے اندھے بن جاتے ہیں۔ ان کے سینے میں موجود دل پتھر کی وہ سل بن جاتا ہے جس پر کوئی بات اثر نہیں کر پاتی۔
مگر ان اندھوں اور پتھر دلوں کو جان لینا چاہیے کہ یہ انکارِ حق کے مجرم ہیں۔ یہ ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ جس روز وہ خدا کی بارگاہ میں پیش ہوں گے ان پر جہنم کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔ اس روز یہ اندھے متعصب لوگ جانیں گے کہ خدا کی دنیا میں تعصب کتنا بڑا جرم تھا۔