کردار کی عظمت ۔ ابویحییٰ
قرآن مجید کی سورہ یوسف میں حضرت یوسف کی داستان کو بہترین قصہ کہا گیا ہے۔ اس میں ایک طرف ایک عظیم پیغمبر ہے جو سیرت و کردار کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہے اور دوسری طرف رب مہربان ہے جس سے بڑھ کر قدردان کوئی ہستی نہیں ہو سکتی۔ اس قصے میں حضرت یوسف کی اعلیٰ سیرت و کردار کے متعدد پہلو نمایاں کیے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض اتنے لطیف ہیں کہ ان کا ادراک کرنا بھی بہت مشکل ہے۔ ہم ایسی ہی ایک مثال قارئین کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں جس کی طرف قرآن مجید نے کمال خوبصورتی سے اشارہ کیا ہے۔
حضرت یوسف کے اس قصے میں ایک جگہ یہ بیان ہوا ہے کہ حضرت یوسف کے بھائی اس وقت ان کے پاس غلہ لینے کے لیے ان کے پاس آئے جب ہر جگہ قحط پڑا ہوا تھا۔ مگر مصر میں حضرت یوسف کے حسن انتظام کی بنا پرغلے کی کوئی کمی نہ تھی بلکہ وہ دوسرے علاقے کے لوگوں کو بھی غلہ دے رہے تھے۔ حضرت یوسف کے بھائیوں کے تصور میں بھی نہ تھا کہ جس بھائی کو انہوں نے کنویں میں پھینکا تھا وہ اب مصر کا بادشاہ بن چکا ہے۔ ان بھائیوں میں حضرت یوسف کے سگے بھائی بن یامین بھی تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے دیگر بھائیوں کو تو اپنی اصلیت سے مطلع نہیں کیا تھا، مگر بن یامین کو اپنے بارے میں بتا دیا تھا۔
بھائی غلہ لے کر جانے لگے تو انھوں نے بن یامین کے سامان میں اپنا پانی پینے کا پیالہ رکھوا دیا۔ اللہ کی قدرت سے یہ ہوا کہ عین قافلے کی روانگی کے وقت ایک شاہی پیمانہ بھی غائب ہو گیا۔ چنانچہ ہر طرف اس کی تلاش شروع ہوگئی۔ قافلے کو روک کر اس کی بھی تلاشی لی گئی۔ شاہی پیمانہ تو نہ ملا مگر بن یامین کے سامان سے حضرت یوسف کا پیالہ برآمد ہو گیا۔ کسی کو ان دونوں کے تعلق کا علم تو تھا نہیں، اس لیے نتیجہ یہ نکالا گیا کہ بن یامین نے یہ پیالہ چوری کیا ہے۔
اس پر ان کے بھائیوں نے فوراً یہ الزام لگا دیا کہ بن یامین نے چوری کی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ اس کا بڑا بھائی یوسف بھی چور ہی تھا۔ اس بے ہودہ اور جھوٹے الزام پر قرآن مجید نے حضرت یوسف کی یہ بات نقل کی ہے کہ انھوں نے اپنے دل میں یہ کہا کہ تم بدترین لوگ ہو۔ مگر انھوں نے اپنے ان جذبات کا اظہار ان لوگوں سے نہیں کیا۔
ایک طالب علم کے سامنے یہ سوال آتا ہے کہ قرآن مجید نے ان کے دل میں آنے والے اس خیال کو کیوں نقل کر دیا ہے۔ چاہے ایک غلط بات کے ردعمل میں سہی، مگر اس سے بظاہر حضرت یوسف کا غصہ سامنے آتا ہے جو اس پورے قصے کی روح سے کچھ مناسبت نہیں رکھتا نہ بظاہر اس بلند کرداری سے جس کا اظہار حضرت یوسف نے ہر قدم پر کیا۔۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید نے ان کے دل کی یہ کیفیت نقل کر کے ان کے کردار کی عظمت کو ایک مختلف پہلو سے متعارف کرایا ہے۔
حضرت یوسف کوئی عام آدمی نہیں تھے ۔ مصر کے مختار کل تھے۔ وہ چاہتے تو اپنے بھائیوں کی اس بے ہودہ بات پر ناراض ہو کر ان سب کا سر قلم کرا دیتے۔ چاہتے تو ان کو زندان میں ڈلوا دیتے۔ کچھ اور نہیں تو ان کو غلہ دینے ہی سے انکار کر دیتے۔ مگر نہ صرف انھوں نے ان کے پرانے جرائم پر ان کو کوئی سزا نہیں دی بلکہ عین اس وقت جب وہ ان کے دربار میں کھڑے ہو کر ان پر بہتان لگا رہے تھے جس پر ان کو فطری طور پر شدید غصہ بھی آیا جس کا اظہار ان کے اس جملے سے ہورہا ہے جو انھوں نے اپنے دل میں کہا، مگر انھوں نے اپنے جذبات پر قابو رکھا۔ ان کے بہتان پر ان کو کسی قسم کی سزا نہیں دی نہ ان کو غلے سے محروم کیا۔
یہ کردار کی وہ عظمت ہے جسے سامنے لانے کے لیے قرآن مجید نے ان کے بھائیوں کا یہ بہتان اور ان کے دل میں آنے والے اس خیال کو قرآن میں بیان کر دیا ۔صبر و تحمل کا یہی وہ رویہ ہے جو کسی انسان کو اعلیٰ انسان بناتا ہے اور اس کے کردار کو عظیم بناتا ہے۔