ابدی روزہ ۔ ابویحییٰ
اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس فطرت پر پیدا کیا ہے وہ اپنی ذات میں اس کی بہت کچھ رہنمائی کرتی ہے۔ اس فطرت کے مطابق انسان جو کچھ کرتا ہے اسے اللہ کا قانون فطرت کہا جاتا ہے۔ انسان اسی فطرت کے تحت کھاتا ہے پیتا ہے، شادی کرتا ہے، اولاد حاصل کرتا ہے، گھر بناتا اور بہت سے دیگر کام کرتا ہے۔ یہ تمام امور اتنے فطری ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے بغیر جائز ہوجاتے ہیں اور اس کے کہے بغیر اللہ کا حکم بن جاتے ہیں، (البقرہ 222:2)۔
رمضان کا مہینہ آتا ہے تو اللہ تعالیٰ بندوں کا عجب طرح سے امتحان لیتے ہیں۔ وہ اس فطری قانون کے تحت جائز چیزیں یعنی کھانا، پینا اور میاں بیوی کا تعلق ایک خاص وقت کے لیے ناجائز کر دیتے ہیں۔ بندے رب کا حکم سنتے ہیں اور اس کی اطاعت کا اظہار کرتے ہوئے اپنی فطری ضروریات سے بھی رک جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس پر اتنا خوش ہوتے ہیں کہ احادیث کے مطابق جنت میں ان کے لیے ایک خاص دروازہ بنا دیتے ہیں۔ ان کی منہ کی بو کو خوشبو سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ان کو روزہ کی جزا خود دینے کا وعدہ کرتے ہیں اور اپنی ملاقات کے وقت ایک خاص خوشی ملنے کی خوش خبری سناتے ہیں۔
اس دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خدا کے قانون ابتلا کے تحت قانون فطرت کی جائز کردہ بہت سی نعمتوں سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جاتے ہیں۔ بہت سی بہنوں کی شادیاں نہیں ہو پاتیں۔ بہت سے لوگ معذور رہتے ہیں۔ بہت سے لوگ عمر بھر مریض رہتے ہیں۔ بہت سے لوگ تازیست غربت کا شکار رہتے ہیں۔ کچھ کے ہاں اولاد نہیں ہوتی۔ ایسے تمام لوگ ابدی طور پر روزے کی حالت میں ہیں۔ ان کو جب ان کے صبر کا اجر ملے گا تو ہر روزہ دار حیران رہ جائے گا۔ اس روز ان کا اجر ناپنے کے لیے ہر پیمانہ چھوٹا پڑ جائے گا۔