نافرمان بچوں سے نمٹنے کا طریقہ ۔ فرح رضوان
کرکٹ میچ کے دوران، بلے باز کے ہیلمٹ سے جب فل سپیڈ میں آتی گیند ٹکراتی، اور اس تصادم سے وہ چکرا کر رہ جاتا ہے تب وہ ہیلمٹ پر غصہ نہیں نکالتا بلکہ اگلے ہی لمحے وہ اپنا ہیلمٹ اتار کر اسے چومتا ہے، جس کی وجہ سے وہ زخمی ہونے سے بچ گیا۔ تو اگر کبھی کسی تیسرے فرد سے اپنے بچے کے متعلق غیر اخلاقی اور ناقابل یقین خبر ملے تو اس مخبر سے جھگڑے اور بحث کے بجائے، اللہ کا شکر کریں کہ بروقت آپ کو علم ہو گیا اب آپ کوئی سد باب کر پائیں گے۔ اور اس خیر خواہی پر اس کا شکریہ ادا کریں۔
بچے سے تصدیق کے دوران آپ کا خون کتنا ہی کھولے اور دل کتنا ہی ڈولے لیکن اپنے الفاظ اور انداز کو بے قابو نہ ہونے دیں۔ اور یہ کلاس اور لیکچرز ایک ہی دن کی تو بات نہیں، لہٰذا جب کبھی شدید غصہ آئے، خود پر قابو پانے میں دقت ہو، تو ٹھنڈے دل سے سوچیے کہ دانت مضبوط ہوں تب تو بندہ گنا کھا کر یا اخروٹ توڑ کر ان پر زور آزمائی کرے۔ لیکن! دانت ہی کمزور ہوں، مسوڑھوں سے خون آئے، ٹھنڈا گرم لگے یا ان میں پس پڑ جائے، تب تو لازمی ان کی حفاظت کی خاطر، نرم اور پرہیزی غذا ہی کھانی پڑتی ہے۔
مانا کہ ان حالات میں والدین خود کو بند گلی میں پاتے ہیں جہاں کوئی در کھلتا دکھائی نہیں دیتا۔ اگر آپ کو بھی لگتا ہے کہ زندگی کے سفر میں تاریکی نے ڈیرے ڈال لیے ہیں تو امید سحر کا دامن نہ چھوڑیں بلکہ راتوں کو اٹھ کر اپنے رب سے ربط بڑھائیں، اور اس سے مدد چاہیں جو ہر بند دروازے کو پلک جھپکتے کھول سکتا ہے۔
اگر آپ واقعی اولاد کو راہ راست پرلانا چاہتے ہیں تو اس پر سختی کرنے کے بجائے خود کو سختی سے مولڈ کیجیے، یوں جب تلخی دور ہوگی تو فاصلے کم ہوں گے۔ فطری محبت میں جوش نہ سہی کچھ گرمی تو ان شا اللہ ضرور آئے گی۔ برف پگھلنے کو یہ حرارت بھی بہت کافی ہے، بات کرنے کا موقع ملے تو اچھے وقت کی یادیں دہرائیں، چھوٹی چھوٹی باتوں پر تعریف کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
یعقوب علیہ السلام کو ایک طرف تو چہیتے بیٹے کی جدائی کا غم، کیا کم تھا کہ بیک وقت اپنے ہی دس بیٹوں کے سازشی کردار کو بھی جھیلنا پڑا۔ کیا انہوں نے بچپن سے ان کی بہترین تربیت نہ کی ہوگی؟ لیکن وہ دس کے دس بیک وقت شیطان کے جھانسے میں آگئے۔ لہٰذا خود کو مجبور سمجھ کر گھٹن کا شکار ہونے کی بھی ہرگز ضرورت نہیں کہ اولاد کے ہاتھوں یہ دن دیکھنے پڑ گئے۔
ذرا آگے پڑھیے تو پتہ چلتا ہے کہ وقت کے نبی کو ان کے وہی دس بیٹے گیارہویں بھائی کو اپنے گھر کے غلے کی کمی پوری کرنے کے لیے لے جانے پر بضد ہیں۔ اور آخرکار بوڑھے باپ کو ان کی خواہش کے سامنے جھکنا پڑ رہا ہے، جو واپس آکر اپنے ضعیف والد کو یہ اطلاع بھی دے رہے ہیں کہ اس بھائی کو بھی وہ ان کے بارہویں بیٹے کی طرح گنوا بیٹھے ہیں۔ اور اسی پر بس نہیں بلکہ جب یعقوب علیہ السلام، بن یامین کے اس دکھ پر یوسف علیہ السلام کو بھی یاد فرماتے ہیں تو ان دس بیٹوں میں سے کسی ایک نے بھی کیا انہیں تسلی دی؟ گلے لگایا؟ ان سب کے الفاظ و انداز پر ذرا غور تو کریں۔ لیکن دوسری جانب والد کی زبان پر وہی سالوں پرانی بات کہ صبر جمیل کروں گا۔ اور یہ کہ میں اپنے غم و الم کی فریاد اللہ ہی سے کرتا ہوں۔ کسی سے شکوہ نہیں نا امیدی کی کوئی بات نہیں بلکہ اللہ کی رحمت پر کامل یقین کہ بیشک ﷲ کی رحمت سے صرف وہی لوگ مایوس ہوتے ہیں جو کافر ہیں۔ پھر جب ان بیٹوں نے اپنے جرم کا اعتراف کیا تو جواب میں والد نے کیا کیا؟ انہیں طعنے دیے؟ بددعا دی؟ دھمکیاں دیں یا گھر سے دھکے دیے؟ نہیں بلکہ تسلی دی کہ اللہ کے حضور ان کے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں گے۔ آخر کار اتنے کٹھن مراحل کو صبر سے طے کرنے کے بعد، کھوئی ہوئی بینائی، بچھڑی ہوئی اولادیں، خیر و منزلت سبھی کچھ نصیب ہوا۔