ڈائری کے چند اوراق ۔ فرح رضوان
حکمت کم از کم دو طرح کی ہوتی ہے جس کا نتیجہ سامنے آنے کے بعد ہی پتہ چلتا ہے کہ آیا وہ درست حکمت عملی تھی یا غلط۔
غلط حکمت عملی کو درست میں بدلنے کا واحد حل یہ ہے کہ، فوراً یو ٹرن لے کر صراط مستقیم پر زندگانی کی گاڑی کو موڑ لیا جائے۔ اسی طرح طالبعلم بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں، کچھ لوگ علم سے سیکھتے ہیں کچھ دوسروں کے تجربات سے اور کچھ، استاد، والدین یا حالات سے مار کھا کر۔ اور انتہائی شرمندگی کے ساتھ اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑ رہا ہے کہ راقم کا شمار کسی حد تک آخر الذکر میں ہی ہوتا ہے۔
ہوا یوں کہ گھر کے بیک یارڈ میں اچھلتی کودتی ایک عدد گلہری پر دل آگیا، وہ بھی ہماری نظروں کو بھانپ گئی آنکھیں چار ہونے کی دیر تھی کہ اس نے طرح طرح کی ادائیں دکھا کر دل موہ لیا۔ دن بھر کچن اور بیک یارڈ کے بیچ شیشے کے دروازے سے اس کی کار گزاریاں دکھائی دیتیں، کبھی وہ ہاتھ باندھنے کے انداز میں فریادی بنی کھڑی ہوتی، جیسے کہہ رہی ہو کہ باجی دو دن سے کچھ نہیں کھایا کچھ کھانے کو دے دو۔ اور ہزار بار یہ خیال آنے کے باوجود بھی، کہ کینیڈا میں اس طرح سے جانوروں کو فیڈ کرنا جرم ہے، کسی پڑوسی نے دیکھ کر شکایت کر دی تو بھاری فائن الگ دینا پڑے گا اور خفت و ندامت الگ اٹھانی پڑے گی، لیکن دل کسی پر آجائے تو، عقل کی سنتا کب ہے؟ سو اب یوں ہونے لگا کہ دن میں دو بار، وہ آتی اور دروازے پر ٹک کر بیٹھ جاتی اور میں، دل سے مجبور اس بے کس و مجبور کو کچھ نہ کچھ ضرور ڈال دیتی۔ کچھ دن گزرے تھے کہ اس کا سٹیٹس سنگل نہ رہا، چلو جی کوئی گل نہیں بلکہ اچھا ہے کہ جو کھانا بچ جاتا ہے وہ کچرے میں نہیں جاتا بلکہ کسی بھوکے کے پیٹ میں جاتا ہے جو عین صدقہ ہے۔
ایک بار میری اس لوجک پر ایک دوست نے ٹوکا بھی کہ یہ جو گرین بن ہیں یہ اسی لیے ہیں لیکن مسئلہ سیدھا تھا کہ دل آجائے کسی پر تو عقل کی آنکھ اور کان پر پتھر پڑ جاتے ہیں، کچھ دن گزرے کہ ہمیں اپنی چھت پر آوازیں آنی شروع ہو گئیں، شروع میں تو یہ کم تھیں لیکن بعد میں اتنی بڑھیں کہ اگر کوئی ضعیف العتقاد شخص ہوتا تو لازمی یہی سمجھتا کہ اوپر کسی اوپری چیز نے ڈیرہ ڈال لیا ہے۔ بہرحال چھت سے جانوروں کو پکڑنے والوں سے رابطہ کیا گیا، اور زیادہ افسوس ان سے یہ جان کر ہوا کہ یہ ہماری پیاری راج دلاری گلہریاں تھیں جنہوں نے طعام کے اتنے عمدہ اہتمام کے بعد ہمارے ہی سر پر قیام کا خود ہی انتظام فرما لیا تھا۔
اس روز جس طرح مجھے اس بات کی گہرائی سمجھ آئی تھی کہ ایک مسلمان کو کس کس طرح کس حد تک مسلم یا غیر مسلم حکمران کے احکامات کی پابندی کرنی چاہیے پہلے کبھی نہیں آئی تھی۔ بہر حال ایک خطیر رقم دے کر یہ سبق حاصل کر لیا اور اوپر جالیاں کیج سب لگوا کر مطمئن ہو گئے، لیکن دو دن نہ گزرے تھے کہ پھر کھٹ پٹ شروع اور پھر دھما چوکڑی اور گھمسان کارن، لیکن ابھی شکر تھا کہ ہفتے بھر کی وارنٹی میں کام ہوا تھا اور ہفتہ مکمل نہ ہوا تھا۔ مگر دوسری طرف یہ پتہ چلا کہ جناب جو در، ہم ایک بار بند کر دیتے ہیں وہ دوبارہ کھلے تب تو وارنٹی کی رقم میں کام ہو جاتا ہے لیکن جانور نیا رستہ بنا لے تو فیس بھی نئی۔ اس پر اس ڈپارٹمنٹ کو تو ہم نے نہیں کہا اور پھر اپنے کونٹریکٹر سے جو غالبا اسپینش، اور ہر فن مولیٰ ہے کال کیا، لیکن ہفتہ نہ گزرا تھا کہ پھر شور۔ اس شور میں بہت زیادہ زیادتی کی وجہ یہ تھی کہ ان دو گلہریوں کی گود ہری اور ہماری مصیبت دوہری ہو چکی تھی۔ ہمارے گھر کے سامنے دائیں بائیں، ماشااللہ بہت ہی اچھے پڑوسی ہیں ہر کام میں بہت ہی مددگار، تو ایک روز انہیں میں سے ایک نے پوچھا کہ آپ لوگوں کو کچھ فنی آوازیں تو نہیں آتیں؟ کیونکہ ہر روز میں آپ کی چھت پر پانچ گلہریوں کو اچھلتے دیکھتا ہوں، ہمارے پاس اس کے سوا کوئی جواب نہیں تھا کہ قسم لے لو یہ فنی نہیں اذیت ناک آوازیں ہیں کیونکہ سب بچے تھک ہار کر جب سوتے تو ان کا شور سونے نہیں دیتا۔ اور جب سے ایک دوست نے بتایا تھا کہ ایسے ہی ایک کیس میں اس کی نند کی چھت کتر کتر کر گرا دی تھی گلہریوں نے تب سے جان حلق میں اٹک گئی تھی، ہم نے ان کو فیڈ کرنا تو کب سے بند کر دیا تھا، جس کے جواب میں انہوں نے ہمارے سیب کے درخت سے تمام پھل غائب کر ڈالے۔ تین چار بار، جگہ جگہ سے راستے بند کیے تھے حتی کہ نہ قابل یقین حرکت یہ بھی کی انہوں نے کہ برساتی پانی کی نکاسی کے لوہے کے پائپ کے پیچ تک الگ کر کے رستہ بنا لیا۔
پھر کنٹریکٹر کو فون، پھر بے چارہ وہ ہنگامی بنیادوں پر حاضر، لیکن اب کی بار یہ ہوا کہ ان کے بہت ہی چھوٹے بچے شدید سردی میں ٹھٹھرتے کانپتے شیشے کے اسی دروازے پر آکر بیٹھ گئے اور ہماری فیملی نے مشترکہ طور پر ان کی فیملی کے لیے یہ فیصلہ کیا کہ اگر اب کے انہوں نے واپسی کا رستہ بنا لیا تو برف ختم ہونے تک ہم اپنا آرام و سکون قربان کر کے ان کو نکالنے کی کاروائی ترک کر دیں گے۔ اور یہی ہوا کہ اگلے ہی دن پھر پھٹا پھٹ دھنا دھن تڑا تڑ گھس پھس، دھبڑ دھبڑ کی ساری آوازیں آنی شروع ہو گئیں اور اب کی بار یہ سوچ کر کہ کہیں بھوک میں یہ چھت کو کتر کتر کر ہی نہ ڈھا دیں ہم نے ان کو دوبارہ فیڈ کرنا شروع کر دیا، اور یہ بھی صحیح کی بھتہ خور نکلیں ، جب جتنا مانگتیں ہم دیتے رہے کہ بس چھت محفوظ رہے اور ہر روز کی برف باری اور طوفان تھمنے تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر ایک کیج آگیا کہ ایک ایک کر کے ان کو پکڑ کر ایک ہی جنگل میں چھوڑ آئیں گے، تاکہ فیملی ری یونین ہو جائے، پر یہ بھی بڑی سیانی نکلیں بہرحال بچہ جو، اب کافی بڑا ہو چکا تھا وہ عقل کا کچا نکلا اور پکڑا گیا۔ لیکن وہ بھی عقل کا ہی کچا تھا نصیب کا نہیں کہ بیٹی صاحبہ کے سامنے پکڑا گیا اور پھر جو وہ گھبرایا ہے اس میں تو بیٹی نے تڑپ کر اسے آزاد کروا دیا کہ آپ لوگ کوئی اور حل تلاش کریں یہ ظلم نہ کریں اور میں اس کی اس خواہش کے سامنے چپ رہی، جو اتنے عرصے سے صرف ان کا ہی شور برداشت نہیں کر رہی تھی اپنے ضمیر کی مسلسل ملامتوں کو بھی سن رہی تھی، کہ میں وہی تو ہوں جو ان لوگوں سے ہمیشہ شاکی رہتی ہوں جو گھروں میں شوقیہ جانور پالتے اور ان پر ہزاروں ڈالرز خرچ کر ڈالتے ہیں جبکہ اتنی خطیر رقم سے تو کسی بھی مستحق کے دسیوں کام میں امداد اور ان کے خاندان کی زندگی آسان کرنے میں مدد کی جا سکتی ہے۔ اور اب میرا ہی خود ساختہ صدقہ جاریہ، پورے گھر کے لیے مسلسل خواریہ بن چکا تھا، کئی بار کی مرمت میں خطیر رقم خرچ ہو چکی تھی۔
بہرحال پھر ہوا یوں کہ اس بار کنٹریکٹر نے بہت ہی بہترین انتظام کے ساتھ فول پروف مرمت کی اور پھر ہم ہنسی خوشی رہنے لگے۔ چار دن کے لیے، چوتھے دن اللہ نے ہم پر اتنا کرم کیا کہ جتنا شکر کریں کم ہے کہ اچھے پڑوسی نے بیل بجا کر بتایا کہ بھائی صاب آپ کی چھت پر جو وینٹ کا کور ہے اسے، اس جنگلی حیات نے کتر کتر کر زمین بوس کر ڈالا ہے، آج رات شدید بارش اور صبح طوفان کی پیش گوئی ہے، اگر کھلی چھت پر پانی پڑ گیا تو بے حد نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے۔ اور ساتھ ہی اس نے محلے میں بڑی سیڑھی کی تلاش شروع کر دی کہ مل جل کر مدد ہو سکے، دوسرے پڑوسی کو پتہ چلا تو وہ کچھ امدادی سامان لے آیا لیکن پروفیشنل سیڑھی کسی کے پاس نہ تھی سو کنٹریکٹر کو کال کیا گیا اور اتوار کی شام ہونے کے باوجود وہ اور اس کی بیوی دونوں گھنٹے بھر کی ڈرائیو کر کے فوراً مدد کو پہنچے کہ کہیں بارش ہو گئی تو بہت نقصان ہو جائے گا۔ اور جہاں یہ کرم تھا اللہ تعالیٰ کا کہ بروقت پڑوسی کی نگاہ پڑ گئی، امداد کو سب آگئے وہاں یہ بات بھی۔ غور طلب تھی کہ ان میں سے کوئی ایک بھی کسی بھی فرقے کا مسلمان نہ تھا۔ بہرحال یہ بہت کاری وار تھا ہمارے unwanted guests کا سو بچوں نے بھی فتویٰ صادر کر دیا کہ مسلمان ایک سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جاتا تو اب آپ ان کو پنجرے میں پکڑ لیں۔
اگلے دن جب پنجرہ لگا، ایک نیا سبق ہم نے یہ سیکھا کہ ہر فیصلے کا ایک درست وقت ہوتا ہے جو نکل جائے تو اس پر عمل درآمد ناممکن ہو جاتا ہے۔ وہ اس طرح کہ سرد موسم کے رخصت ہونے پر لمبی چونچ والی بڑی چڑیاں واپس آچکی تھیں، تو ادھر کیج میں کچھ کھ نے کو رکھ کر سیٹ کرتے، اگلے چند منٹ میں چڑیا باہر سے ہی کھانے پر چونچ مارتی اور خالی کیج کا دروازہ بنا شکار کے ہی بند ہو جاتا….. لیکن الحمدللہ، کوشش، دعا یا توبہ شاید قبول ہوچکی تھی، اور اس بار مرمت کے بعد کوئی نازک راستہ بچا بھی نہ تھا، اس لیے ان گھس بیٹھیوں کا ٹولہ، تھک ہار کر نقل مکانی کر گیا۔
ڈائری کے یہ اوراق شیئر کرنے کی وجہ وہ نہیں جو اب تک کی روداد سے آپ سمجھے ہیں، بلکہ اتفاق سے زندگی کی اس پریکٹکل کلاس کا اینڈ ہوتے ہوتے، رجب آ گیا۔ اور رجب اور شعبان میں ہمارے یہاں جس درجے کی بدعات کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ان کی طرف ذہن چلا گیا اور اچانک سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ ہر بدعت اسی طرح ہی تو شروع ہوتی ہے، اپنی مرضی کی نیکی کے زعم میں، ذرا سی، بنا مشقت آسان سی نیکی کی خواہش میں، مزیدار سی نیکی کے لبادے میں، خیرخواہی اور حقوق ادا کرنے کی آڑ میں، تو کیا ہو گیا کے بہانے کے ساتھ۔ تو دیکھ لیا کہ کیا ہوا، صرف ایک rule کو over rule کرنے سے یہاں تو محض کئی ماہ کی کوفت، لکا چھپی کا کھیل اور خطیر رقم کا زیاں ہی تھا لیکن بدعات تو ایمان کے نام پر ایمان کا صفایا کر دینے والا ناقابل تلافی نقصان ہے، آخرت کے شدید پچھتاوے کا نام ہے، اور وجہ صرف ایک ہی ہے، بالکل وہی ہٹ دھرمی، جو کافر کرتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا غلط تھے کیا؟ بے شمار مذہبی پیشوا سرے سے غلط ہیں کیا؟ صرف آپ ہی ایک عقل مند، عالم اور صحیح دین پر ہیں، اور ان گنت لوگ احمق یا جاہل ہیں کیا؟
ایک دوست بتاتی ہیں کہ۔ جب پہلی بار ہم نے بدعات کے بارے میں جانا تب تک ہمارے والد کا انتقال ہو چکا تھا۔ والد بے حد پڑھے لکھے چلتے پھرتے انسائکلوپیڈیا، انگلش اردو کی لغت تھے۔ کبھی ہمیں کتاب کھولنے کی ضرورت ہی نہ پڑی، جو لفظ ہوتا جو مسلہ ہوتا ہم والد سے پوچھ لیتے اور بلا تردد ہمیں ہر جواب مل جاتا۔ دور اور قریب کے تمام احباب، محلے دار، سبھی ان کی شخصیت سے ایسے ہی فائدہ حاصل کرتے، اور ان کے علم سے مرعوب ہوتے۔ ان پر رشک اور مکمل اعتماد کرتے، اور کبھی کوئی کتاب کھول کر دیکھنے کی ضرورت ہی نہ سمجھتا۔ لیکن جب ان کے بعد ہمیں اپنے سوالات و مسائل کے حل کے لیے کتابیں کھولنی پڑیں، لیکچرز سننے پڑے تب۔ تب ذہن یہ قبول کرنے کو تیار ہی نہ تھا کہ میرے والد سے اتنی بڑی چوک کیسے ہوگئی، کہ قرآن اور صحیح احادیث سے ہٹ کر خود ساختہ روایات کی تقلید نہ صرف وہ کرتے رہے۔ کیونکہ ان کے بزرگ کیا کرتے تھے، بلکہ ساتھ ہی وہ اپنی اولاد اور ہم اپنی اولاد میں منتقل کرتے گئے۔ کیونکہ یہ من گھڑت روایات، نہ صرف خاندانی طور پر پشت در پشت چلی آرہی ہیں بلکہ ان کا ایک راستہ بند کرو تو دوسرے کئی راستوں سے آن موجود ہوتی ہیں۔ "مذہبی پیشواؤں” کے ذریعے سے مساجد سے، اخبارات سے میگزینز سے کتابوں سے اور اب تو ہر چیز کو رکھو ایک طرف tv کے مشہور و معروف سکالرز سے، پوری پوری ٹرانسمیشن سے، جائیں تو جائیں کہاں؟ اور واقعی جب کوئی نظر نہیں آتا تب ایک اللہ ہی نظر آتا ہے۔ مجھے اپنے والد کے لیے سب سے زیادہ دکھ تھا سب سے بڑا پہاڑ یہی تھا کہ وہ ہیرو جو ہمیشہ سے بہت اونچی مسند پر تھے جن کے علم کا لوہا ایک دنیا مانتی تھی، ایک پل میں ان کا علم، وقار، قد و قامت سب کچھ کیسے زیرو ہوسکتا ہے۔ لیکن پھر ہر جذبے اور تعصب سے ہٹ کر دل سے دعا کی اور صرف قرآن اور صرف صحیح حدیث کی روشنی میں جاننے کی کوشش کی، حقیقت کو تسلیم کیا اور الحمدللہ، اللہ نے رہنمائی فرمائی، بات طویل ہو رہی ہے، لیکن!
سوال یہ ہے کہ کیا کسی بھی کمپنی میں جاب کے لیے یا کسی ملک کی شہریت پانے کے لیے جو ٹیسٹ دیے جاتے ہیں، ان میں سے ایک بھی mandatory سوال کا جواب درست نہ دیا جائے یا سرے سے دیا ہی نہ جائے تو آپ کو کیا ملے گا؟ وہ انڈا جو نہ اگلے بنے نہ نگلے۔ اور رونا اس بات کا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عافیت پانے کی جو چار بنیادی شرائط رکھی ہیں یعنی کامل ایمان، عمل صالح، حق کی تلقین صبر کی تاکید اس میں سے ہم شیر کا جگر رکھنے والے خم ٹھونک کر تین کام تو بہت خوش اسلوبی سے کرتے ہیں لیکن چوتھا یعنی حق کی تلقین کو خاموش رہنے میں ہی حکمت کے خانے میں ڈال کر مطمئن رہتے ہیں۔ آج ہم اپنی اس غلط حکمت عملی یا دین پر بے عملی کا حشر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ غیر مسلموں کے گھر تک جا کر انھیں دین کی دعوت نہ دی۔ اور وہ ہمارے گھروں میں، گولہ بارود اور اپنے کلچر سمیت گھس گئے، خاندانوں میں رائج غلط اصولوں پر، محبت، رعایت، کم علمی، معاملہ فہمی، احسان، کے نام پر اپنے جائز stance کو صدقہ کر ڈالا، بدعت کرنے والے اپنے پیارے بزرگوں، عزیزوں، پڑوسیوں کو نہ روک سکے نہ ٹوک سکے نہ حق کی تلقین کر پائے اور نتیجہ؟ کسی سے چھپا ہوا تو نہیں۔
یاد رکھیے کہ جو لوگ بندر بنا دیے گئے تھے ان کی قوم میں بھی ہمارے ہی جیسے تین طرح کے لوگ تھے۔ ایک وہ جو برملا برائی کرتے تھے۔ دوسرے وہ جو برائی دیکھ کر، سانو کی۔ والا رویہ رکھتے۔ تیسرے وہ تھے جو بلا خوف حق کی نصیحت کرتے اور برائی سے روکتے تھے، اور وہی بچا لیے گئے تھے۔ لوط علیہ السلام کی بیوی کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ یہی کہ وہ اتنی لبرل تھی کہ اس نے برائی کو دل میں برا جاننا بھی اہم نہ سمجھا اور بروں کے ساتھ عذاب میں ماری گئی.اور اب ہمارا حال یہ ہے کہ پانی گردن تک آچکا ہے اور ہم حکمت، مروت، اور مفاد کے ماروں کے حلق سے بچاؤ بچاؤ کی آواز تک نہیں نکل پا رہی۔