مال اور حق پرستی ۔ ابویحییٰ
قران مجید میں انفاق کے ضمن میں سورہ بقرہ (265:2) میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ یہ اہل ایمان اپنا مال اللہ کی رضا اور اپنے آپ کو راہ حق پر جمائے رکھنے کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ اللہ کی رضا والی بات تو بالعموم لوگوں پر واضح ہے لیکن یہ بات کہ مال خرچ کرنا راہ حق پر انسان کو استقامت دیتا ہے وضاحت طلب ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مال ہر دور میں دنیا کے قائم مقام رہا ہے۔ خواہش اور خواب کو حقیقت کا روپ دینے والی شے مال و دولت ہی ہے۔ انسان مال سے دنیا کی نعمتوں اور لذتوں کا جھمگٹا اپنے گرد اکھٹا کرسکتا ہے۔ تاہم کسی کے پاس لامحدود مال نہیں ہوتا کہ وہ اپنی ہر خواہش پوری کرسکے۔ اور اگر مال ہو تب بھی بہت کچھ حاصل کرنے کی دوڑ میں انسان حلال و حرام کی حدود کو فراموش کرسکتا ہے۔
یوں انسان اگر مال سے مقصود صرف یہ بنا لے کی اسے اپنی ہر خواہش پوری کرنی ہے تو جلد یا بدیر وہ راہ حق سے ڈگمگا جائے گا۔ لیکن جو لوگ اپنے مال دوسرے انسانوں پر اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں وہ گویا اپنی تربیت کرتے ہیں کہ ان کے مال پر ان کی خواہشات ہی کا نہیں بلکہ دوسرے انسانوں کی ضروریات اور اللہ کے دین کے تقاضوں کا بھی حق ہے۔
یوں نفس اور خواہش کے بے لگام گھوڑے کو انفاق کے چابک سے قابو کیا جاتا ہے۔ دوسروں پر خرچ کر کے انسان خود کو یہ سمجھاتا ہے کہ میری خواہشات کی حد وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں دوسروں کی ضروریات شروع ہوتی ہیں۔ انسان خود کو یہ یقین دلاتا ہے کہ اس دنیا کے بعد بھی ایک دنیا ہے جہاں میرا مال سات سو گنا تک بڑھا کر مجھے دے دیا جائے گا۔ اس روز میرا لگایا ہوا یہ درخت وہ پھل دے گا جو کبھی ختم نہ ہوں گے۔ یہی سچی حق پرستی ہے جوانفاق سے پیدا ہوتی ہے۔