عورت، مرد اور قرآن ۔ ابویحییٰ
قرآن کریم کی سورہ نور میں اللہ تعالیٰ نے مرد و زن کے حوالے سے جو احکام دیے ہیں وہ بلاشبہ حکمت و بصیرت کا شاہکار ہیں۔ بلاشبہ یہ احکام ایک علیم و حکیم ہستی ہی دے سکتی ہے۔ ان احکام کا پہلا کمال یہ ہے کہ زنا کو روکنے کے لیے مذہب کی تاریخ میں پہلی دفعہ مردوں کو کچھ احکام دیے گئے ہیں۔ قرآن سے پہلے اور اس کے بعد بھی انسان جب مذہب کو بیان کرتے ہیں تو بدکاری کا اصل سبب عورت کو ٹھہراتے اور اسی پر پابندیاں لگاتے رہے ہیں۔ مگر قرآن مجید نے مرد و زن دونوں کو الگ الگ مخاطب کر کے ایک ہی حکم دیا، لیکن ابتدا مردوں سے کی گئی ہے کہ وہ اپنی نظر کی حفاظت کریں اور حفظ فروج سے کام لیں۔ پھر خاص طور پر مردوں کو ایک بات کہی جو عورتوں کو نہیں کہی۔ وہ یہ کہ ان کے لیے یہ طریقہ پاکیزہ تر ہے اور اللہ ان کے ہر کام سے واقف ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف مردوں کے لیے صاف پیغام ہے کہ ہم جانتے کہ تم ہی حدود توڑتے ہو اور تم ہی زنا کی ناپاکی پھیلاتے ہو۔
پھر یہ اللہ تعالیٰ ہی ہیں جو جانتے ہیں کہ خواتین کس پہلو سے زنا پھیلانے میں معاون بنتی ہیں۔ چنانچہ اس کے بعد خواتین کو ایک اضافی حکم دیا گیا۔ مگر اس حکم کا اصل کمال یہ ہے کہ یہ حکم بظاہر عورتوں پر کچھ پابندیاں لگاتا ہے اور ان کے جذبہ نمائش کو کچھ حدود میں لاتا ہے، مگر ساتھ ہی مردوں کی نفسیات کو اس طرح ایڈریس کرتا ہے کہ جب تک کوئی شخص خود شیطان نہ ہو، اس کے ذہن کا خناس بے قابو نہیں ہوسکتا۔
مردوں کی یہ نفسیات ہوتی ہے کہ وہ عورت کو ماں بہن بیٹی اور ان جیسے کچھ اوررشتوں میں تو ایک پاکیزہ مقام دینے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، مگر رشتوں کے اس دائرے سے باہر عورت ان کے لیے انسان کم اور صنفِ مخالف زیادہ ہوتی ہے۔ یہ صنف مخالف اپنی نسوانی کشش کو نمایاں کر دے تو معاشرے کو زنا کی آلودگی سے بچانا بہت مشکل ہوجائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے اسی مسئلے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ اللہ تعالیٰ نے چن کر ان چیزوں کا انتخاب کیا جو نہ صرف عورتوں کا خاصہ ہیں بلکہ وہی مردوں کے لیے انہیں باعث کشش بھی بناتی ہیں۔ فرمایا کہ سینے کے ابھار ہوں یا زیب و زینت اور سنگھار، دونوں کو چھپا کر رکھو۔ حتیٰ کہ تمھارے پاؤں کی پازیب بھی پکار کر یہ اعلان کرنا چاہے کہ میں عورت ہوں تو اسے دبادؤ تاکہ مرد کا ذہن انسانیت کو چھوڑ کر تمھاری نسوانیت کی طرف متوجہ نہ ہو۔
ان احکام پر عمل کرنے کے بعد جو معاشرت وجود میں آئے گی اس میں مرد و زن دونوں اپنی نگاہوں کو بے باک چھوڑنے کے بجائے ان پر پہرے بٹھانے والے اور باحیا لباس زیب تن کرنے والے ہوں گے۔ اس معاشرے کے مرد اپنی پاکیزگی کے بارے میں حساس اور اپنے رب کی نگرانی کے احساس میں خواتین کا سامنا کریں گے۔ جبکہ خواتین اپنی نسوانیت اور زینت کی نمائش کر کے اپنی نسوانی کشش کو نمایاں کرنے کے بجائے بحیثیت انسان خود کو متعارف کرانے والی ہوں گی۔
بلاشبہ یہ احکام اعتدال اور توازن کا شاہکار ہیں۔ یہ احکام ہر طرح کے حالات، ہر قوم، ہر ماحول، ہر موسم، ہر جغرافیے میں قابل عمل ہیں۔ یہ ازل سے ابد تک پھیلے اس انسانی مسئلے کو بہت آسانی سے حل کر دیتے ہیں۔ ان میں کوئی افراط نہیں کوئی تفریط نہیں۔ ان سے معمولات زندگی متاثر نہیں ہوتے، خاندانی تعلقات ختم نہیں ہوتے، سماج میں دیواریں کھڑی نہیں ہوتیں، مگر یہ معاشرے سے بدکاری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ ان احکام کے بعد کوئی مرد اور عورت قیامت کے دن اللہ کے حضور یہ نہیں کہہ سکتا کہ پروردگار میں جس ماحول میں جیتا تھا، جس معاشرت میں رہتا تھا، جس موسم کو جھیلتا تھا، جس دور میں کھڑا تھا وہاں آپ کی بات قابل عمل ہی نہیں تھی۔ اس اعتبار سے یہ حکم گویا کہ ہر زمانے اور ہر دور کے مرد و زن پر اتمام حجت کردیتا ہے کہ اللہ کا مطالبہ بہت آسان اور قابل عمل تھا۔ اس کے بعد بھی لوگ عمل نہیں کرتے تو اس کا کوئی عذر ان کے پاس نہیں رہ جاتا۔
جو شخص مرد عورت کی نفسیات سے واقف ہے اور انسانی سماج کے مسائل کا ادراک رکھتا ہے وہ ان احکام کی حکمت سمجھتے ہی سجدے میں گرنے پر خود کو مجبور پائے گا۔ ہر انصاف پسند انسان مانے گا کہ یہ احکام ہر افراط و تفریط سے پاک ہیں۔ نہ قرآن سے پہلے کبھی کسی نے اس مسئلے کی جڑ کو سمجھا نہ بعد میں سمجھ سکا۔ نہ کوئی پہلے اس کا مکمل اور ہر طرح کے حالات میں قابل عمل حل دے سکا نہ بعد میں دے سکا۔ یہی ان آیات مبارکہ کا سبق ہے جو قیامت تک ہر مرد اور خاص کر خواتین پر یہ حجت قائم کرتی ہیں کہ دین کے احکام ہر طرح کے حالات میں قابل عمل ہیں۔
’’مومن مردوں سے کہہ دو، (اے پیغمبر کہ اگر عورتیں سامنے ہوں تو) وہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ جو کچھ وہ کرتے ہیں، اللہ اُس سے پوری طرح واقف ہے۔
اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کی چیزیں نہ کھولیں، سواے اُن کے جو اُن میں سے کھلی ہوتی ہیں، اور اپنی اوڑھنیوں کے آنچل اپنے سینوں پر ڈالے رہیں۔
اور زینت کی چیزیں نہ کھولیں، مگر اپنے شوہر کے سامنے یا اپنے باپ، اپنے شوہر کے باپ، اپنے بیٹوں، اپنے شوہر کے بیٹوں، اپنے بھائیوں، اپنے بھائیوں کے بیٹوں، اپنی بہنوں کے بیٹوں، اپنے میل جول کی عورتوں اور اپنے غلاموں کے سامنے یا اُن زیر دست مردوں کے سامنے جو عورتوں کی خواہش نہیں رکھتے یا اُن بچوں کے سامنے جو عورتوں کی پردے کی چیزوں سے ابھی واقف نہیں ہوئے۔ اور اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلیں کہ اُن کی چھپی ہوئی زینت (لوگوں کے لیے) ظاہر ہوجائے۔ اور ایمان والو، سب مل کر اللہ سے رجوع کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘(النور 31-30: 24)