ہیلمٹ ۔ ابویحییٰ
پچھلے دنوں شہر کراچی میں ہیلمٹ پہننے کی پابندی لگی۔ جب یہ اعلان ہوا تو لوگوں نے اس کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیا۔ مگر جب پولیس نے مقررہ تاریخ کے بعد سختی کرنی شروع کی تو لوگ ہیلمٹ خریدنے پر مجبور ہوگئے۔ اس لیے کہ پولیس اہلکار جگہ جگہ ناکے لگا کر موٹر سائیکل سواروں کو روکتے اور ہیلمٹ نہ ہونے پر انہیں جرمانے کرتے یا ان سے رشوت لے کر انہیں جانے دیتے۔ انہی دنوں ایک صاحب میرے گھر آئے تو بتانے لگے کے راستے میں دو جگہ پولیس والوں نے انہیں روکا اور دونوں جگہ پیسے دے کر انہوں نے اپنی جان چھڑائی۔
اس صورتحال کا نیتجہ یہ نکلا کہ 300 روپے میں ملنے والا ہیلمٹ تین گنا قیمت پر 900 روپے میں فروخت ہونے لگا۔ بعض جگہ ٹھیلوں پر ہیلمٹ فروخت ہونے لگے۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ چوروں اور راہزنوں نے ہیلمٹ چوری کرنا اور چھیننا شروع کر دیے۔ تاہم یہ صورتحال زیادہ عرصے جاری نہیں رہ سکی۔ تھوڑے دنوں میں حالات ’معمول‘ پر آگئے۔ یعنی پولیس کی مہم ٹھنڈی پڑگئی۔ لوگوں کی بڑی تعداد ہیلمٹ کے بغیر اب دوبارہ موٹر سائیکل چلاتی ہے اور کوئی انہیں روکتا ٹوکتا نہیں۔
اس صورتحال کو دیکھنے کا ایک پہلو یہ ہے کہ وقفے وقفے سے کوئی حکومتی یا سرکاری اہلکار کسی ہیلمٹ درآمد کرنے والے تاجر سے بھاری رشوت لیتا ہے اور پھر ہیلمٹ کی پابندی کا حکم جاری ہوجاتا ہے۔ یہ تاجر جب بھاری منافع پر اپنا امپورٹ کیا ہوا مال بیچ دیتا ہے تو پولیس سختی کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ بار بار یہ کہانی دہرائی جاتی ہے اور تاجر اور حکام دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹتے ہیں۔ صورتحال کو دیکھنے کا ایک دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ کسی قوم کے لوگ اگر ذہنی طور پر کسی قانون کی پابندی کے لیے تیار نہیں تو زور اور زبردستی کے ساتھ زیادہ عرصہ تک ان سے اس قانون کی پابندی نہیں کرائی جاسکتی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ پولیس، حکام اور قانون نافذ کرنے والے ادارے تعداد میں عوام سے کہیں کم ہوتے ہیں۔ دوسرے انہیں کسی ایک قانون کی خلاف ورزی کا نوٹس نہیں لینا ہوتا بلکہ ہزارہا قوانین اور ضابطوں کی نگرانی کرنی ہوتی ہے۔ اگر لوگوں کی اکثریت کسی خاص قانون کی پابندی کرنے کے لیے تیار ہی نہیں تو زیادہ عرصہ تک بالجبر اس کی پابندی کرانا ممکن نہیں ہوتا۔
اس سلسلے میں لوگوں کی ذہنی ساخت اور تربیت کی کمی کو سمجھنے کے لیے میں ایک بہت پڑھے لکھے اور باشعور شخص کا واقعہ بیان کروں گا۔ ان سے جب یہ کہا گیا کہ آپ موٹر سائیکل چلاتے ہیں تو ہیلمٹ نہیں پہنتے۔ حالانکہ یہ حفاظت کے نقطہ نظر سے بہت ضروری ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ساری زندگی میں نے موٹر سائیکل چلائی ہے۔ آج تک تو میرا ایکسیڈنٹ نہیں ہوا۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ لوگ اتنی بنیادی بات بھی نہیں جانتے کہ ایکسیڈنٹ زندگی میں بار بار نہیں ہوتا، مگر جب کبھی ہوتا ہے تو ہیلمٹ، موت و زندگی کے درمیان ایک فیصلہ کن لکیر کھینچ دیتا ہے۔
جب عوام اس رخ پر سوچتے ہوں تو محض قانون کے زور پر اصلاح نہیں ہوسکتی بلکہ جیسا کہ شروع میں میں نے بیان کیا ہے کہ رشوت پنپنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں یا پھر مہنگے داموں چیزیں فروخت کرنے والے تاجروں کی چاندی ہوجاتی ہے۔ صرف ہیلمٹ کا واقعہ ہی اس بات کی وضاحت کے لیے کافی نہیں بلکہ جہیز، شادی کے کھانے پر پابندی وغیرہ کے قوانین کا حشر بھی سب کے سامنے ہے۔
اصل کام کرنے کا یہ ہے کہ قوم کو باشعور اور تعلیم یافتہ بنایا جائے۔ ہمارے تعلیمی نصابات میں ایران و توران کی خبریں تو بہت ہوتی ہیں لیکن بدقسمتی سے شہریت کا شعور(Civic Sense) پیدا کرنے اور اخلاقیات کے بیج کی آبیاری کرنے پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ ایسے میں والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو ذمہ دار بنائیں۔ اپنی جان، مال، آبرو کے تحفظ کے لیے بھی اور دوسرے کے تحفظ کے لیے بھی محتاط اور ذمہ دارانہ انداز سے زندگی گزارنے کی تلقین کریں۔
تیز رفتاری سے پرہیز اور ہیلمٹ پہن کر اسکوٹر چلانا اسی ذمہ دارانہ طرز زندگی کا ایک اظہار ہے جس میں انسان اپنی جان کو بھی تحفظ دیتا ہے اور دوسروں کو بھی نقصان سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ نقصان جو اگر پہنچ جائے تو زندگی بھر کا روگ بن جاتا ہے۔