قیامت کا اے ٹی ایم ۔ ابویحییٰ
’’کیا یہاں سے پیسے ملتے ہیں؟‘‘، یہ آواز سن کر میں ٹھٹکا اور سر گھما کر آواز کی سمت دیکھا۔ یہ ایک چھوٹی سی بچی کی آواز تھی جس کے چہرے اور لباس پر اس کی غربت کی خاموش داستان تحریر تھی۔ اس بچی نے مجھے ATM مشین بوتھ سے پیسے نکالتے ہوئے دیکھا اور اس کے معصوم ذہن میں وہ سوال پیدا ہوگیا جو ابھی اس نے مجھ سے کیا تھا۔
میں نے کہا کہ ہاں بیٹا یہاں سے پیسے ملتے ہیں۔ اس نے فوراً اگلا سوال بڑی معصومیت کے ساتھ داغ دیا، ’’کیا سب کو یہاں سے پیسے مل سکتے ہیں؟‘‘۔ میں نے جواب دیا کہ نہیں، جس کے پیسے بینک میں ہوتے ہیں، صرف اسی کو ملتے ہیں۔ اس مختصر سے مکالمے کے بعد میں آگے بڑھ گیا۔ مگر میں سوچ رہا تھا کہ طارق روڈ کے اس بازار میں جہاں فیشن اور ضرورت کی ہر چیز خریدنے لوگ آتے ہیں، اس معصوم بچی کی قسمت میں سوائے حسرت کے، کچھ نہیں۔
اس دنیا میں پیسہ انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ دنیا میں ہر چیز پیسے سے ملتی ہے۔ یہ پیسہ انسان کو بڑی مشقت اٹھا کر کمانا پڑتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جب قیامت کے بعد اصل زندگی شروع ہوگی تو وہاں کی ہر نعمت نیکی کی کرنسی سے مل سکے گی۔ مگر یہ کرنسی ہر کسی کو دستیاب نہیں ہوگی بلکہ صرف انہی لوگوں کو ملے گی جنہوں اس دنیا میں اعمال صالح کرنے کی مشقت جھیلی ہوگی۔ ان کی نیکیاں اللہ تعالیٰ اپنے ’بینک‘ میں جمع کر لیتے ہیں اور قیامت کے دن وہ جب چاہیں گے انہیں یہ نیکیاں لوٹا دی جائیں گے۔
مگر قیامت کے دن یہ صالحین جب خدائی ’بینک‘ سے نیکیوں کی کرنسی لے کر نکل رہے ہوں گے تو کچھ لوگ اسی طرح ان سے سوالات کریں گے اور انہیں وہی جواب ملے گا اور اوپر بیان ہوا کہ جس کے پیسے ہوتے ہیں اسی کو ملتے ہیں۔
خوش نصیب ہے وہ جس کے حصے میں اس روز ’پیسے‘ آئیں گے۔ بدنصیب ہے وہ جس کے حصے میں اس روز حسرت آئے گی۔