جہالت، تعصب اور بدتمیزی ۔ ابویحییٰ
سمجھا جاتا ہے کہ بیسویں صدی کا نصف آخر وہ عرصہ ہے جس میں دنیا بھر میں مذہب کا احیا ہوا۔ اس عالمی رجحان کی بہت سی سماجی اور سیاسی و جوہات ہیں، مگر اس کے اثرات مسلم معاشروں اور خاص کر ہمارے خطے پر بھی پڑے۔ بڑی تعداد میں لوگوں کا ایک مذہبی رجحان وجود میں آیا۔ مگر درحقیقت یہ اُس اسلامی روح کا احیا نہیں تھا جس کا نمونہ سیرت طیبہ یا صحابہ کرام کی زندگی میں ملتا ہے۔ یہ زیادہ تر فرقہ وارانہ، ظاہر پرستانہ، متعصبانہ اور قوم پرستانہ دینی رجحانات کا احیا تھا۔
چنانچہ آج کل کی اس خاص دینداری میں نہ ایمان کی روح پائی جاتی ہے اور نہ نبوی اخلاق کی خوشبو۔ کچھ ہوتا ہے تو مروجہ دین داری کے انھی عناصر اربعہ یعنی فرقہ بندی، ظاہر پرستی، گروہی تعصب اور قوم پرستی کا ظہور ہوتا ہے۔ انتہا پسندی ہوتی ہے۔ بدتمیزی ہوتی ہے۔ اور اپنی جہالت پر پورا اعتماد ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا کے آنے کے بعد اس رویے کا اظہار اکثر و بیشتر ان کمنٹس سے ہوتا رہتا ہے جو اس خاص قسم کی دینداری کے حاملین مختلف جگہوں پر کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً ایک جلیل القدر عالم کا وڈیو کلپ نظر سے گزرا جس کے نیچے کسی نے کمنٹ کیا تھا کہ شرم کرو حدیث ہی درست پڑھ لو۔ میں نے وڈیو کو دیکھا تو اس میں حدیث اس طرح پڑھی گئی تھی۔
المسلم من سلم الناس من لسانہ و یدہ۔ یعنی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ محفوظ رہیں۔ تاہم عام طور پر بچوں کو کورس کی کتابوں میں اس حدیث کا ایک دوسرا متن پڑھایا جاتا ہے جس میں الناس کے بجائے المسلمون کے الفاظ ہیں۔ ترجمہ یہ ہوگا کہ مسلمان وہ ہے جس کے زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں۔ کمنٹ کرنے والے نے یہی حدیث پڑھ یا سن رکھی ہوگی۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ ایک دوسری روایت بھی موجود ہے۔ اسی مبلغ علم پر بدتمیزی سے بھرپور وہ تبصرہ کیا جو اوپر بیان ہوا۔
یہ کوئی استثنائی معاملہ نہیں ہے بلکہ عام طور پر مذہب کے نام پر کھڑے لوگوں کا عمومی رویہ ہے۔ انتہائی سطحی علم کے ساتھ اپنی سنی سنائی باتوں پر انھیں اتنا اعتماد ہوتا ہے کہ کسی بھی محقق عالم کی تردید شروع کر دیتے ہیں۔ تردید ہی نہیں بلکہ اس کے علم، ایمان اور اخلاص ہر چیز پر فتویٰ بازی شروع کر دیتے ہیں۔ اس سب کے ساتھ بدتمیزی، بدگوئی، تمسخر اور بدزبانی کو بھی اپنا حق سمجھتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ علم کے بغیر کلام کرنا اپنی جواب دہی کو بڑھانا ہے۔ ساری زندگی یکطرفہ تعصبات کا اسیر رہ کر کسی محقق عالم کی تردید کرنا اپنی رسوائی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ خدا کے راستے میں کھڑے کسی شخص سے بدتمیزی اور بدکلامی کو اختیار کرنا اللہ کے غضب کو بھڑکانے کے مترادف ہے۔
مگر ہمارے ہاں مذہبی تربیت کی ساری اساسات غلط کر دی گئی ہیں۔ حق پرستی کے بجائے تعصب اور ایمان و اخلاق کے بجائے ظواہر پرستی ہماری مذہبیت کا خاصہ ہے۔ مگر لوگوں کو جان لینا چاہیے کہ قیامت کے دن ایسی ہر دینداری رد کر دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ صرف اس دینداری کو قبول کریں گے جس میں انسان حق کے اعتراف کے لیے سرجھکانے کا عادی ہو۔ جس میں ایمان و اخلاق کے مطالبات کی پاسداری اصل دین ہو۔
خدا کی جنت اعلیٰ ترین انسانوں کے رہنے کی جگہ ہے۔ یہ اختلاف کے باوجود شائستگی کا رویہ اختیار کرنے والوں کا مقام ہے۔ یہ بدکلامی اور بدزبانی سے دور رہنے والوں کا ٹھکانہ ہے۔ یہ تعصب، فرقہ بندی، گروہی عصبیت، قوم پرستی اور ظواہر پرستی سے بچ کر سچی خدا پرستی کو اختیار کرنے والوں کی جائے قیام ہے۔ جس شخص میں یہ خوبیاں نہیں، اس کا ٹھکانہ جنت نہیں جہنم ہے۔