مسلمانوں کے زوال کا اصل سبب ۔ ابویحییٰ
عصر حاضر میں ہماری جدوجہد
پچھلی دو تین صدیوں میں مسلمانوں کی اجتماعی دانش کا سب سے بڑا مسئلہ اپنے کھوئے ہوئے اقتدار اور عظمت رفتہ کا حصول رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے مسلمانوں نے گزری ہوئی صدیوں میں جو جدوجہد کی ہے وہ بلامبالغہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی جدوجہد ہے۔ اس راہ میں کی گئی جدوجہد کے نتیجے میں بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر لاکھوں لوگوں کی جان جاچکی ہے۔ کروڑوں لوگوں نے اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرتیں کی ہیں۔ ان گنت عصمتیں لٹی ہیں۔ لوگوں نے اس مقصد کے لیے اپنی زندگیاں لگائیں ہیں۔ جوانیاں وقف کی ہیں۔ صلاحیت لگائی، وقت دیا، مال کی قربانی دی، بہترین ذہانتیں صرف کیں۔
مگر اس غیرمعمولی جدوجہد کے باوجود ہم کہاں کھڑے ہیں یہ ہم سب جانتے ہیں۔ تاہم تادم تحریر بھی صورتحال یہ ہے کہ مسلمان دنیا کی ایک پچھڑی ہوئی قوم ہیں۔کشمیر اور فلسطین کو بھارت اور اسرائیل نے جیل خانوں میں تبدیل کر رکھا ہے اور مسلمان بے بسی سے اپنے بھائیوں کی قید و بند اور اجتماعی صعوبت کا منظر دیکھنے کے علاوہ کچھ اور نہیں کرسکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سیاسی اور فوجی طاقت ہی نہیں بلکہ علم و معیشت میں بھی دنیا بھر سے پیچھے ہیں۔ اگر پچھلی صدی میں عربوں کے ہاں اللہ تعالیٰ کی عنایت سے تیل نہ نکلتا تو مسلمان اس سے بدتر حالت میں ہوتے۔
ایسے میں یہ سوال بجا طور پر پیدا ہوتا ہے کہ کہیں مسلمانوں کی جدوجہد کا رخ ہی تو کچھ غلط نہیں ہے۔ کہیں مسئلے کی تشخیص میں تو ہم کوئی غلطی نہیں کر رہے۔ آج ہم اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس عمل میں ہم مسلمانوں کی تاریخ کا ایک اجمالی جائزہ لیں گے جس کے ابتدائی ہزار بارہ سو برس عروج اور پھر زوال کے ہیں۔ اور پھر اس جدوجہد پر تبصرہ کرتے ہوئے جو ہم دور جدید میں دو تین سو برس سے کر رہے ہیں، اس بات کا جائزہ لیں گے کہ غلطی کہاں ہوئی ہے۔
ہمارا ہزار سالہ عروج
مسلمان ایک عظیم ماضی کی حامل قوم ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم پر غلبہ عطا کیا تھا۔ پھر خلافت راشدہ میں صحابہ کرام نے اس دور کی دو عظیم قوتوں روم و ایران کو شکست دے کر دنیا کے وسط میں موجود تمام متمدن خطے پر اپنا اقتدار قائم کرلیا تھا۔ روم کی سلطنت نے تو شام و مصر میں اپنے زرخیز خطے گنوا کر مسلمانوں سے صلح کرلی۔ مگر ایرانی باز نہ آئے اور نتیجتاً ان کی سلطنت کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا۔ اسی کو اقبال نے اپنے باکمال اسلوب میں اس طرح بیان کیا تھا۔
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا جس کا تو ہے ایک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سردارا
خلافت راشدہ کے بعد خلافت بنوامیہ، بنو عباس اور پھر عثمانی خلافت قائم ہوئی اور ان میں سے ہر ایک دنیا کی سب سے بڑی طاقت رہی۔ اس مرکزی حکومت کے ساتھ میں مختلف علاقوں میں مسلم سلاطین نے اپنی اپنی سلطنتیں قائم کیں اور کم و بیش بارہ سو برس تک ان ریاستوں کے زیر سایہ مسلمان دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے طور پر دنیا پر حکومت کرتے رہے۔ اس عرصے میں کچھ علاقوں میں اور بعض مقامات پر مسلمانوں کو کچھ پسپائی اختیار کرنا پڑی جیسے اندلس سے مسلم اقتدار کا خاتمہ، فسلطین پر کچھ عرصہ کے لیے مسیحیوں کا قبضہ یا پھر تاتاریوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی شکست، مگر مجموعی طور پر مسلمان ہی غالب رہے۔
آج امریکہ کو جس مقام پر فائز ہوئے تیس برس بھی نہیں گزرے، سوویت یونین جس مقام پر پچاس برس بھی فائز نہیں رہا اور برطانیہ عظمیٰ عالمی غلبے کو سو سال بھی نہیں دیکھ سکا، مسلمانوں نے اس عروج، اقتدار اور غلبے کا ذائقہ ہزار برس تک چکھا تھا۔ مسلمانوں کا یہ غلبہ صرف سیاسی اور فوجی نوعیت ہی کا نہ تھا بلکہ معاشی، علمی، تہذیبی، تمدنی غرض ہر پہلو سے مسلمان باقی دنیا سے آگے تھے۔ وہ ہر پہلو سے امامت عالم کے منصب پر فائز تھے۔
ہزار سالہ عروج کے بعد ہمارے زوال کا آغاز
ہر کمال را زوال است یعنی ہر کمال کو زوال ہے، کے اصول کے تحت اس عظیم اور طویل عروج کے بعد ہمارا زوال شروع ہوتا ہے۔ ایک طرف ترکی کی خلافت جو ایشیا، افریقہ اور یورپ پر پھیلی ہوئی تھی اور دنیا کے وسط میں پوری شان سے قائم تھی رفتہ رفتہ مرد بیمار میں تبدیل ہوگئی۔ دوسری طرف وہ عظیم مغل سلطنت جس کا رقبہ چالیس لاکھ مربع کلومیٹر تک پھیلا ہوا تھا، ایک دم سے سمٹنا شروع ہوئی۔
ہندوستان میں مسلم اقتدار کی داستان جو ہزار برس پرانی تھی، اس نے مغل سلطنت کے آخری عظیم فرماں روا اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں اپنا عروج دیکھ لیا تھا۔ اس سلطنت نے نہ صرف اشوک اعظم کے بعد پہلی دفعہ برصغیر کو ایک حکومت کے تحت منظم کر دیا تھا، بلکہ معاشی خوشحالی کا عالم یہ تھا کہ کل دنیا کی ایک چوتھائی آمدنی تنہا اورنگزیب کی سلطنت کی آمدنی تھی۔ مگر اورنگزیب کے بعد زوال اس تیزی سے آیا کہ چند عشروں بعد شاہ عالم ثانی کے دو رمیں اس سلطنت کو اس طرح بیان کیا جانے لگا کہ سلطنت شاہ عالم از دہلی تا پالم۔ پالم دہلی کے قریب واقع ایک نواحی بستی تھی جہاں آج کل دہلی کا ائیرپورٹ ہے۔ گویا چالیس لاکھ مربع میل کی سلطنت چند کلومیٹر کے رقبے تک محدود ہوگئی۔ باقی علاقے یا تو خودمختار راجاؤں اور نوابوں میں تقسیم ہوگئے یا پھر پھیلتی ابھرتی ہوئی مرہٹہ طاقت کے سامنے سرجھکانے پر مجبور ہوگئے۔
مرض کی تشخیص اور علاج
اس دور میں مسلمانوں کی فکری قیادت نے مسلمانوں کے زوال کے مرض کی جو تشخیص کی اس کی دو اساسات تھیں۔ ایک یہ کہ مسلمانوں نے جب تک تلوار کو تھامے رکھا وہ دشمنوں پر غالب رہے۔ جب اسے چھوڑ دیا تو مغلوب ہوگئے۔ دوسری اساس یہ تھی کہ مسلمانوں کا علم جمود اور تقلید کا شکار ہوگیا ہے اور ان کا عمل دین سے دور ہوگیا ہے۔ چنانچہ دین کے علم وعمل کو درست بنیادوں پر قائم کرکے اس سفر کو دوبارہ پوری قوت سے شروع کرنا چاہیے۔
تاتاریوں کی یلغار کے بعد جس میں تمام مسلم ممالک زیر و زبر ہوگئے، صرف ہندوستان وہ خطہ بچا تھا جہاں سلاطین دہلی کی بے پناہ جرات کی بنا پر تاتاریوں کے قدم داخل نہیں ہوسکے تھے۔ چنانچہ عرب و عجم کے مسلمان پناہ کی تلاش میں اس خطے میں آبسے۔ اسی وقت سے یہ خطہ مسلم دنیا کا سب سے بڑا علمی مرکز بن چکا تھا۔ اورنگزیب کے بعد ایک طرف مغلیہ سلطنت کا زوال تیزی سے شروع ہوا اور دوسری طرف ایک جلیل القدر ہستی نے اس خطے میں جنم لیا۔
یہ ہستی شاہ ولی اللہ کی تھی جو مسلمانوں کی تاریخ کی ایک انتہائی جلیل القدر ہستی تھی اور انھوں نے جو اثرات بعد میں آنے والوں پر چھوڑے اس لحاظ سے بھی امت کی تاریخ کے کم لوگ ان کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ شاہ صاحب نے مذکورہ بالا دو اساسات کی بنیاد پر مسلمانوں کو مغلوبیت سے نکالنے کی کوششیں شروع کیں۔ چنانچہ ایک طرف انھوں نے نواب نجیب الدولہ اور بعض محققین کے نزدیک احمد شاہ ابدالی کو بھی خطوط لکھ کر مسلمانوں کو مرہٹوں کے بڑھتے ہوئے خطرے سے بچانے کی دعوت دی۔ چنانچہ اس کے نتیجے میں پانی پت کی تیسری جنگ میں احمد شاہ ابدالی نے 1761 میں مرہٹوں کو ایک فیصلہ کن شکست دے کر ان کی کمر توڑ دی۔
دوسری طرف علمی طور پر شاہ صاحب نے دینی علم کے ہر میدان میں انتہائی غیرمعمولی کام کیا۔ انھوں نے قرآن مجید کا فارسی میں ترجمہ کیا جبکہ ان کے دو بیٹوں شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالقادر نے اردو میں قرآن کا ترجمہ کیا۔ اس کے علاوہ تفسیر حدیث، فقہ، تاریخ، اسرار دین، تصوف غرض ہر شعبہ علم میں شاہ صاحب نے اجتہادی نوعیت کا کام کیا۔ چنانچہ برصغیر کا کوئی عالم نہیں جس پر شاہ صاحب کے بالواسطہ یا بلاواسطہ اثرات نہ پڑے ہوں۔
ہماری دو سوسالہ جدوجہد اور اس کا نتیجہ
شاہ صاحب کے زمانے سے اب تک دو ڈھائی سو برس کی مدت میں مسلمان انھی دو نکات کو بنیاد بنا کر اصلاً انھی خطوط پر کام کر رہے ہیں۔مگر ہم جانتے ہیں کہ آج کے دن تک غلبے کا وہ خواب اپنی تعبیر نہ دیکھ سکا بلکہ مسلمانوں کا زوال کئی پہلوؤں سے بڑھتا چلا گیا۔
پہلے فوجی محاذ کو لے لیجیے۔ 1761 میں احمد شاہ ابدالی کی پانی پت کی تیسری لڑائی میں مرہٹوں کے خلاف فتح عالم اسلام کی آخری فتح تھی۔اس سے قبل یورپ کی ابھرتی ہوئی طاقت کے خلاف عثمانی خلافت کی فتوحات کا سلسلہ پہلے ہی رک چکا تھا۔ 1683 سے 1699 تک جاری رہنے والے عظیم ترک معرکے (Great Turkish War) میں ترک ویانا فتح کرنے گئے تھے، مگر ہنگری گنوا کر لوٹے۔ اس کے بعد ترکوں کے زوال میں تو کچھ وقت لگا، مگر مغلوں کا زوال تیزی سے شروع ہوگیا۔ ہندوستان میں شکستوں کی ایک ختم نہ ہونے والی داستان تھی جس کا آغاز 1757 میں جنگ پلاسی میں بنگال کے زرخیز صوبے کے نواب سراج الدولہ کی انگریزوں کے ہاتھ شکست سے ہوچکا تھا۔
1799 میں ٹیپو سلطان نے سرنگا پٹم میں انگریزوں سے شکست کھائی۔ 1831 میں سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید (شاہ ولی اللہ کے پوتے) نے بالا کوٹ میں سکھوں سے شکست کھائی۔ 1857 میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی مشترکہ جنگ آزادی میں انگریزوں کو فتح ہوئی اور ہندوستان میں ہزار سالہ مسلم اقتدار کے رسمی خاتمے کے ساتھ ہندوستان مکمل طور پر انگریزوں کی غلامی میں چلا گیا۔
دوسری طرف ہندوستان سے باہر بھی مسلمانوں کی پے در پے شکستوں کا سلسلہ جاری رہا۔ 1830 میں یونان کے خلافت عثمانیہ سے آزاد ہونے کے بعد خلافت عثمانیہ کا انحطاط بالکل نمایاں ہوگیا اور مختلف جنگوں میں انھیں پے در پے شکستیں ہوتی چلی گئیں۔ یہاں تک کہ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا اور اس کے تمام ایشیائی، افریقی اور یورپی مقبوضات اس کے ہاتھ سے نکل گئے۔ یوں دنیا کے تین براعظموں پر حکمران مسلمان 1920 میں دنیا کے صرف تین فی صد حصے کے مالک رہ گئے۔ اس عرصے کے دوران انفرادی طور پر کی جانے والی تمام جدوجہد جیسے امام شامل کی روس میں، عمر مختار اور مہدی سوڈانی کی افریقہ میں جنگ بھی یورپی طاقتوں کو روکنے میں مکمل ناکام رہی۔
فکری محاذ پر مسلمانوں کی جدوجہد
جنگی محاذ کے علاوہ فکری محاذ پر بھی مسلمانوں نے زبردست جدوجہد کی۔ جمال الدین افغانی نے عالمی طور پر، ان کے زیر اثر مصر میں مفتی محمد عبدہ اور علامہ رشید رضا، اِدھر برصغیر میں علامہ سر محمد اقبال، مولانا آزاد، علامہ شبلی نعمانی جیسے اکابرین نے مسلمانوں کے جسد میں ایک نئی روح پھونکنے کی کوشش کی۔ مسلمانوں نے علی گڑھ تحریک، تحریک مدارس، تحریک خلافت، ریشمی رومال تحریک جیسے بڑی تعلیمی اور سیاسی تحریکیں چلائیں۔ اس کے بعد کے زمانے میں احیائے اسلام اور احیائے خلافت کی تحریکوں کے عنوان سے بھی مسلمانوں نے بڑی جدوجہد کی۔ مگر صورتحال آج کے دن تک وہی ہے جو تین سو برس قبل تھی۔
ہمارا زوال سماجی زوال ہے
اس تفصیلی جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں کی فکری قیادت نے مسلمانوں کے زوال کے اسباب کی جو تشخیص کی تھی وہ درست نہ تھی۔ یہ درست ہوتی تو دو تین سو برس کی جدوجہد اور بے پناہ قربانیوں کے نتیجے میں ہم یقینا اپنے کھوئے ہوئے عروج کو حاصل کرلیتے۔ ہمارے نزدیک اصل مسئلہ جسے سمجھنے میں غلطی لگی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارا زوال کسی خاص شعبے کا نہیں ہمہ گیر معاشرتی زوال تھا اور ہے۔ سیاسی اور علمی زوال اس کا ایک اظہار تھا۔ یہ اصل مرض نہ تھا۔
ہمارا اصل مسئلہ ہمہ گیر سماجی زوال ہے جو معاشرے کی اشرافیہ اور مڈل کلاس میں اعلیٰ افراد کے نہ پیدا ہونے کا ایک فطری نتیجہ ہے۔ سماج افراد سے بنتا ہے اور اعلیٰ سماج اعلیٰ افراد سے وجود میں آتا ہے۔ اس حقیقت کو اقبال نے اس طرح بیان کیا تھا۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
مڈل کلاس اور اشرافیہ کو غریب طبقات پر دو پہلوؤں سے برتری حاصل ہوتی ہے۔ پہلی برتری اس پہلو سے ہوتی ہے کہ عام طور پر ان کے ہاں اعلیٰ اقدار کا ایک شعور پایا جاتا ہے۔ کوئی شخص اس شعور کے مطابق اپنی زندگی ڈھال لے تو وہ اعلیٰ انسان بننے کی بنیادی شرط پوری کر دیتا ہے۔ برتری کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ابتدائی زندگی سے ان کی بنیادی انسانی ضروریات پوری ہو رہی ہوتی ہیں۔ یہ چیز انھیں موقع دیتی ہے کہ وہ اپنی ذات سے اوپر اٹھیں اور معاشرے کے اجتماعی خیر و شر کو اپنا مسئلہ بنائیں۔ کوئی شخص یہ دوسرا مرحلہ بھی طے کرلے تو وہ اعلیٰ انسان بن جاتا ہے۔
قومیں جب زوال پذیر ہوتی ہیں تو اس کا سبب یہی سماجی بانجھ پن ہوتا ہے جس میں ان دو خصوصیات کے حامل اعلیٰ انسان جنم لینا بند کر دیتے ہیں۔ یہاں سے ایک عمومی سماجی زوال شروع ہوتا ہے جو تمام شعبہ ہائے زندگی میں پھیل جاتا ہے۔ گرچہ قدرت کے قانون کے مطابق اعلیٰ درجہ کے دو چار دس لیڈر اور رہنما معاشرے میں پھر بھی جنم لے سکتے ہیں۔ اسی طرح فطرت کے زور پر بہت اچھے لوگ معاشرے میں ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ مگر معاشرتی تنظیم میں اصل کردار درمیانے درجے کی اسی لیڈرشپ کا ہوتا ہے جس کی معتدبہ تعداد کا موجود ہونا سماج کی زندگی اور طاقت کی بنیادی شرط ہے۔
ہمارے ہاں یہ مسئلہ اورنگزیب عالمگیر نے اسی وقت نمایاں کر دیا تھا جب یہ پوری طرح نمایاں ہورہا تھا۔ اس کے پچاس سالہ دور حکومت میں آخری پچیس برس وہ دکن میں مرہٹوں کے خلاف لڑتا رہا مگر ان کو مکمل طورپر شکست نہ دے سکا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ربع صدی میں اس نے پچیس لاکھ فوجی مروائے، مگر اسے کامیابی نہ ہوسکی۔ اس کے اہم ترین لوگ جن میں اس کا بیٹا بھی شامل ہے دشمنوں سے جاملا تھا۔
وہ اپنے خطوط میں اس مسئلے کو اجاگر کرتے ہوئے لکھتا ہے۔
”آدم ہشیار، امانتدار، خدا ترس، آباداں کار کمیاب۔“، (رود کوثر، صفحہ 531)
اعلیٰ اخلاقی اور انسانی خصوصیات کے حامل انسانوں کی کمیابی ہی وہ مسئلہ تھی جو اصل میں مسلمانوں کے زوال کا سبب بنی اور اسی کو عالمگیر نے نمایاں کیا ہے۔ مردان کار کی اسی نایابی کو وہ اور خط میں بیان کرتا ہے۔ ایک اور خط میں وہ بتاتا ہے کہ وہ بنگال کے اس صوبے کے لیے کوئی منتظم ڈھونڈ رہا تھا جو وہاں کے معاملات پوری طرح سنبھال لے، مگر اسے کوئی فرد ایسا نہ مل سکا۔ وہ اس صورتحال کا سبب یہی بیان کرتا ہے کہ ”از نایابی آدم کار آہ، آہ“،(حوالہ سابق)۔
سماجی بانجھ پن کی وجوہات
اس سماجی بانجھ پن کی دو وجوہات ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ تربیت کے ادارے غیرفعال ہوجائیں اور اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کریں اور دوسرا یہ کہ تربیت کی اساسات غلط ہوجائیں۔
ان میں سے پہلی چیز یعنی تربیت کے اداروں کا غیرفعال ہوجانا ہمارے معاشرے میں اس وقت ایک معلوم و معروف حقیقت ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہمارا تربیتی نظام بہت مضبوط اور فطری بنیادوں پر قائم تھا۔ ماں کی گود بچے کی پہلی تربیت گاہ کہلاتی تھی ۔والدین کے علاوہ خاندان کے بزرگ، محلے کے بڑے بھی اس تربیت میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے تھے۔ اساتذہ کا کام صرف تعلیم دینا نہیں ہوتا تھا بلکہ تربیت تعلیمی نظام کا لازمی حصہ ہوتی تھی اور استاد اس حوالے سے اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرتے تھے۔
معاشرتی سطح پر مساجد کے ائمہ، علماء و دانشوروں کے علاوہ اہل تصوف کا ایک پورا ادارہ تھا جو معاشرے میں اعلیٰ انسانی اقدار اور اجتماعی خیر و شر کے تصور کو پورے طور پر زندہ رکھے ہوئے تھا۔ مگر رفتہ رفتہ مادیت کے فروغ نے اس پورے تربیتی نظام کو متاثر کرنا شروع کیا اور ایک ایک کرکے تربیت کی اس عمارت کے تمام ستون اپنی جگہ چھوڑتے چلے گئے۔
والدین اب اپنی سماجی، تفریحی اور معاشی سرگرمیوں میں اتنا مصروف ہیں کہ بچوں کی تربیت ان کا اصل مسئلہ نہیں رہی۔ اساتذہ تنخواہ لینے والے سرکاری اور پرائیوٹ ملازم رہ گئے ہیں۔ تصوف کا ادارہ ختم ہوچکا ہے۔ علماء اور ائمہ فرقہ واریت کے اسیر ہیں اور اسی کے داعی ہیں۔ جبکہ دانشوروں کو سیاست کی چاٹ ایسی لگی ہے کہ وہ اس کے سوا کسی چیز میں دلچسپی نہیں لیتے۔
تربیت کی اساسات کا غلط ہوجانا
ان روایتی تربیتی اداروں کی کمزوری اور خاتمے کے ساتھ تربیت کے جو نئے ادارے وجود میں آئے ان کی اپنی اساسات اور ترجیحات بالکل غلط تھیں۔ سماجی تربیت کا سب سے بڑا ادارہ اس وقت میڈیا ہے جو اپنی تمام شکلوں یعنی فلم، ٹی وی، اخبار، انٹرنیٹ وغیرہ میں یا تو لوگوں میں منفی سوچ پیدا کر رہا ہے یا پھر مادیت اور معیار زندگی بلند کرنے کی دوڑ کو فروغ دے رہا ہے۔ گاڑی، بنگلے، ظاہری خوبصورتی، اسٹیٹس، کیرئیر اور دیگر مادی چیزوں کی چکاچوند میڈیا لوگوں پر اس طرح مسلط کیے ہوئے ہے کہ اعلیٰ اور برتر انسانی اقدار کا وہاں ذکر ہی نہیں رہا۔
دوسری طرف مذہب کے نام پر تربیت کے جو ادارے مذہبی جماعتوں، تحریکوں اور گروہوں نے جنم دیے ہیں، انھوں نے انسانی فطرت اور دین حق میں موجود تربیت کی اصل اساسات کے بجائے غیر متعلق اور غیر اہم چیزوں کو تربیت کی اساسات بن ادیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ چھ چیزیں ہیں جن میں سے تین دینی اساسات رکھتی ہیں اور تین فطری اساسات ہیں جو فرد کی تربیت میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں اور ایک اعلیٰ انسان کی ضامن ہیں۔ مگر مروجہ تربیتی نظام میں ان چھ چیزوں کی جگہ چھ دوسری چیزوں نے لے لی ہے۔
حق پرستی کے بجائے تعصب
پہلی یہ کہ دین حق میں بنیادی انسانی وصف یہ ہے کہ انسان کے لیے حق اور سچائی سب سے بڑا مسئلہ ہو۔ قرآن نے اہل جنت کے جو چار درجات بیان کیے ہیں، ان میں سے نبوت کا دروازہ تو عام لوگوں کے لیے بند ہے۔ باقی تین میں سے سب سے بلند صدیقیت کا مقام ہے۔ صدیق وہی شخص ہے جس کے لیے حق اور سچ سب سے بڑا مسئلہ ہو اور جب سچ اس کے سامنے آجائے تو پھر وہ ہر تعصب کو پرے رکھ کر اس سچ کا اقرار کرلے۔ اسے قول و عمل میں اختیار کرلے۔ اور اس کے مطابق خود کو ڈھال لے۔ جبکہ ہمارے موجودہ دینی تربیتی نظام میں حق کے بجائے تعصبات اہم ہوچکے ہیں۔ اپنا گروہ، اپنا فرقہ، اپنا عالم، اپنا نظریہ سب سے اہم ہوچکے ہیں۔ لوگ سچائی پر اپنے تعصب کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنے تعصبات کے دفاع کو کرنے کا سب سے بڑا کام سمجھتے ہیں۔
نیکی کا تصور اور اعمال کی روح
دین حق میں دوسری بنیادی چیز نیکی کا وہ تصور ہے جس میں ایمان و اخلاق اور ان کے تقاضوں کو اصل دینی مطالبے کی حیثیت حاصل ہے۔ خدا کی ہستی انسان کے لیے اہم ترین ہوجائے۔ اس کی بندگی اور اطاعت اصل مسئلہ بن جائے۔ عدل، احسان، انفاق انسان کی زندگی بن جائیں۔ فواحش، منکرات اور ظلم و زیادتی سے بچنا انسان کا اصل ہدف بن جائے۔ اعلی اخلاقی رویے اس کی شخصیت بن جائیں۔ یہ وہ مطالبات ہیں جن کا اختیار کرنا کسی شخص کو دین کی نظر میں نیک و صالح بناتا ہے۔ مگر ہمارے تربیتی نظام میں کچھ ظواہر پرستی نیکی اور تقویٰ کا اصل معیار بن چکی ہے۔ کچھ ظاہری چیزوں کے ہونے نہ ہونے پر کسی شخص کی ساری دینداری منحصر ہے۔
دین حق میں ظاہری اعمال کی نفی نہیں ہے۔ بہت سے ظاہری اعمال عین مطلوب ہیں۔ مثلاً عبادات کا ظاہری ڈھانچہ اپنی ذات میں عین مطلوب ہے۔ مگر ہماری مروجہ تربیتی نظام کی تیسری خامی یہ ہے کہ اس میں ساری توجہ ظاہری ڈھانچے اور فقہی موشگافیوں پر رہتی ہے اور ان کی اصل روح، حقیقت، مقصد کو بالکل فراموش کر دیا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس ظاہری ڈھانچے پر باہمی مخالفت کا ایک طوفان برپا رہتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ فاتحہ خلف الامام، رفع یدین، آمین بالجہر اور ان جیسے متعدد مسائل پر لوگ ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔
تین دنیوی اساسات
مذکورہ تین دینی چیزوں کے علاوہ تین اور چیزیں ہیں جن میں ہمارا تربیتی نظام بالکل غلط جگہ سے لوگوں کی تربیت کر رہا ہے۔ پہلی یہ کہ عقل انسان کا شرف ہے۔ مگر اجتماعی اور دینی معاملات میں لوگوں کی تربیت اس طرح کی گئی ہے کہ وہ عقل کو کونے میں رکھ کر جذباتی بنیادوں پر آراء قائم کرتے ہیں۔ ہم نے ”اجتماعی اور دینی معاملات“ کی تعبیر اس لیے اختیار کی ہے کہ ذاتی معاملات میں ہر شخص بہت عقلمندی اور ہشیاری کا معاملہ کرتا ہے۔ وہ تحلیل و تجزیہ سے کام لے کر معقول فیصلے کرتا ہے۔ مگر جب اجتماعی معاملات آئیں تو ایک جذباتی تقریر، ایک رومانوی تصور اور ایک جوشیلا نعرہ ہماری عقلی استعداد کو ختم کر دیتا ہے۔ لوگ معقولیت کے بجائے جذباتی باتوں پر آراء قائم کرتے اور صحیح و غلط کے فیصلے کرتے ہیں۔
ہمارے تربیتی نظام کا دوسرا فطری انحراف مثبت انداز فکر کے بجائے منفی انداز فکر کا فروغ ہے۔ یہ کوئی سادہ بات نہیں ہے۔ منفی انداز فکر کے ساتھ اعلیٰ اخلاقی رویوں کا پروان چڑھنا بہت مشکل ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اعلیٰ اخلاقی رویے، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، ہماری تربیت میں اپنی اصل حیثیت میں مطلوب ہی نہیں ہیں۔ چنانچہ منفی انداز فکر ہمیں بہت سوٹ کرتا ہے جس کے ساتھ کچھ ظاہری اعمال کو اختیار کیے ہوا شخص دوسرے کسی شخص کی بھی نیت اور ایمان کا فیصلہ کر دیتا ہے۔ ہماری تربیت اس طرح کر دی گئی ہے کہ ہم ہر چیز کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ہر جگہ سازشوں کے افسانے تلاش کرتے ہیں۔ انھی چیزوں کی ترویج کرنے والے لوگ ہمارے فکری رہنما بن چکے ہیں۔ اور مثبت انداز فکر رکھنے والوں کو وہ پذیرائی نہیں ملتی جو ملنی چاہیے۔
اس سلسلے کی آخری اہم چیز اصولوں کے بجائے شخصیات کی پیروی ہے۔ ہم یہ حقیقت بھول چکے ہیں کہ ہمارے ہاں ایک ہی شخصیت ہے جس سے اختلاف نہیں ہوسکتا۔ جس کی تقلید واجب ہے۔ جس کی پیروی میں فلاح دارین ہے۔ یہ ہستی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے تربیتی نظام میں شخصیات اور اکابرین کو وہ حیثیت دے دی جاتی ہے جہاں ان سے اختلاف نہیں ہوسکتا۔ ہماری یہ شخصیت پرستی صرف مذہب تک ہی محدود نہیں بلکہ ہمارے مزاج کا حصہ بننے کے بعد سیاست میں بھی اب پوری طرح اس کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ اصولوں کے بجائے اپنے لیڈروں کی پیروی ہماری تربیت کا حصہ بن چکی ہے۔ چنانچہ لوگ اپنے لیڈروں کے عاشق ہوتے ہیں۔ ان کی ہر اچھی بری بات کی تائید کرتے ہیں۔ ان کی ہر بے اصولی کا دفاع کرتے ہیں۔ ان کی ہر غلطی کی توجیہ و تاویل کرتے ہیں۔
ہمارا حال اور مستقبل
حقیقت یہ ہے کہ پچھلے دو تین سو برس کی جدوجہد سے ہم دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام تو حاصل نہیں کرسکے ہیں بلکہ جو کچھ اچھی تربیت اور اعلیٰ اخلاق کا سرمایہ ہمارے پاس تھا وہ اس راہ میں گنوا چکے ہیں۔ اس وقت معاشرے میں جو خیر نظر آتا ہے وہ کسی تربیت کا نہیں بلکہ اللہ کی پیدا کردہ اس فطرت کا نتیجہ ہے جس کے اثرات انسانوں میں بہت گہرے ہوتے ہیں اور بری سے بری تربیت کے لیے اس کے نقش مٹانا آسان نہیں ہوتا۔ مگر یہ فطرت سماجی تنظیم اور اجتماعی تبدیلی کا کام نہیں کرسکتی۔ یہ تو تربیت کی اساسات کو ٹھیک کرنے ہی سے ہوگا۔
انفرادی کے ساتھ اگر کوئی اجتماعی خیر بھی ہمیں نظر آتا ہے تو وہ اللہ ہی کی عنایت ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ پچھلی صدی میں اللہ تعالیٰ نے دو ایسے معاملات کیے ہیں جنھوں نے مسلمانوں کے وجود کو مکمل تباہی میں جانے سے بچالیا۔ ایک یہ کہ دو عظیم جنگوں اور خاص کر دوسری جنگ عظیم میں یورپی قوموں کی طاقت باہمی لڑائی میں ختم ہوگئی اور یوں وہ اس قابل ہی نہ رہے کہ مسلمانوں کو غلام رکھ سکیں۔ دوسری طرف عربوں کے قدموں سے سیال سونے کی شکل میں تیل کے ذخائر نکال دیے گئے۔ یوں سیاسی غلامی کے علاوہ معاشی غلامی سے نجات کا ایک راستہ بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دیا۔
اللہ تعالیٰ کی مدد کے اور بھی کئی پہلو ہیں جو بیسویں صدی میں ظاہر ہوئے اور ان پر ہم نے اپنے ایک الگ مضمون میں روشنی ڈال کر ان کی حکمت و مصلحت کو واضح کیا ہے۔ مگر سردست یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ہم آج کے دن تک دنیا کے مقابلے میں ایک پچھڑی ہوئی ملت ہیں۔ خاص کر مسلمانوں کے دو گروہ جو عشروں سے دنیا میں خدا کے نام پر کھڑے ہیں یعنی عرب اور اہل پاکستان دونوں ہی بدترین اخلاقی پستی کا شکار ہیں۔
مکمل تباہی سے بچنے کا راستہ
قدیم صحف سماوی اور تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ خدا کے نام پر کھڑے ہونے والے لوگ جب اس رویے کا مستقل مظاہرہ کرتے رہیں اور اصلاح کرنے والوں کی بات سننے سے انکار کر دیں تو پھر آخر کار خدا کا فیصلہ آتا ہے جو ایک بہت بڑی تباہی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ امت کی امامت اور دنیا کی رہنمائی کسی اور گروہ کے حوالے کر دیتے ہیں۔ چاہے وہ مسلمانوں کا کوئی گروہ ہو یا پھر غیرمسلموں کے کسی گروہ کو مسلمان کرکے ان سے یہ کام لیا جائے۔
ہم اگر اس مکمل تباہی سے بچنا چاہتے ہیں تو معاشرے کے متوسط طبقے اور اشرافیہ کے لوگوں میں سے ہر باشعور آدمی کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس وقت کرنے کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ تربیت کی ان درست اساسات کو پوری قوت کے ساتھ قوم کے سامنے زندہ کیا جائے جن کو ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے نئے ادارے بنائے جائیں۔ جو ادارے بنے ہوئے ہیں وہ اس تربیت کو اپنا مشن بنائیں۔ ادارہ انذار اسی مقصد کے تحت تشکیل دیا گیا ہے اور اپنی حقیر بساط کے مطابق یہ خدمت سرانجام دینے کی کوشش کر رہا ہے۔
دوسرا یہ کہ ہم اپنی انگلیاں دوسروں کی طرف اٹھانا چھوڑدیں اور اپنی ذاتی تربیت کو سب سے بڑا مسئلہ بنائیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہر شخص دوسرے کی دس ایکڑ زمین پر اسے وہ فصل لگانے کا مشورہ دیتا ہے جسے وہ اپنی دو گز زمین پر لگانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارا دائرہ عمل ہماری ذات، ہمارا خاندان اور وہ جگہیں ہیں جہاں ہم خود موجود ہوں۔ ان کو نظر انداز کرکے ملک و ملت کے معاملات پر فکر مند رہنا اور تبصرے و تجزیے کرنا ایک کار لاحاصل ہے۔
تیسرا یہ کہ تربیت کا یہ کام اپنی درست اساسات پر کیا جائے۔ ورنہ تربیت تو بہت ہو رہی ہے اور لاکھوں لوگ پیدا ہو رہے ہیں جنھیں ملک و ملت کی فکر ہے اور جو مذہب کے نمائندے بن کر معاشرے میں کھڑے ہیں۔ مگر تربیت کی جس بھٹی سے یہ اینٹیں تیار ہو رہی ہیں اس کی بنیادیں ہی غلط ہیں اس لیے نتیجہ کچھ نہیں نکل رہا۔ اعلیٰ انسان انھی چھ درست تربیتی اساسات سے پیدا ہوتے ہیں جن کو ہم نے پیچھے بیان کیا ہے۔ ان اساسات کو سمجھنے کے لیے محنت کی جائے۔ وقت نکالا جائے۔ ہم ادارہ انذار کے تحت اپنی بساط کی حد تک ان درست بنیادوں کو سامنے لانے اور ان کی بنیاد پر لوگوں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کر رہے ہیں۔
یہ کام ہم (ادارہ انذار) اس یقین کے ساتھ کر رہے ہیں کہ اس وقت آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر یہ کرنے کا سب سے بڑا کام ہے۔ اس کا اجر قیامت کے دن سب سے بڑھ کر ہوگا کہ یہی کار انبیا ہے۔ یہی ہمارے پیسے، وقت اور صلاحیت کا بہترین استعمال ہے۔ اور ان شاء اللہ یہی کام آخرت کی فلاح اور دنیا میں غلبے و عروج کا اصل راستہ ہے۔
جہاں رہیے اللہ کے بندوں کے لیے باعث رحمت بن کر رہیں، باعث آزار نہ بنیں۔