بچوں کی تربیت ۔ محمد سلیم
آنسہ ”نجاۃ النہاری“ یمنی عرب ہیں، مذہب کے لحاظ سے یہودی ہیں، پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں، سکونت کے لیے اسرائیل ہجرت کر کے جاچکی ہیں، کاتبہ ہیں، بلاگر ہیں، عرب اخبارات ان کے مقالات کو شوق سے شائع کرتے ہیں۔ اسرائیل میں رہ کر بھی ان کا دل یمن میں اٹکا رہتا ہے اور وہ اپنے سابقہ وطن کو کبھی بھی نہیں بھول پاتیں۔
لکھتی ہیں: مجھے صدقہ کرنا ایک کبڑے نے سکھایا تھا، میرے صدقہ کرنے سے اسے ہنسی بھی بڑی آتی تھی، جی بھر کے قہقہے لگاتا تھا مگر ہم جب یمن سے نکلے تو وہ ہمارے لیے اور ہماری جدائی پر رو بھی رہا تھا۔
کہتی ہیں، میری عمر سات سال سے بھی کم ہوگی، میں اپنے محلے کے اس کبڑے، جسے لوگ قاضی محمد کبڑا کہہ کر بلاتے تھے کے پاس سے گزر رہی تھی کہ دیکھا اس سے ایک بوڑھی عورت کچھ صدقہ خیرات مانگ رہی ہے۔ قاضی محمد کبڑے کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔ اس وقت میں نے پانچ کا نوٹ پکڑ رکھا تھا بلکہ اس نوٹ کو اپنے منہ میں ڈالے چبا رہی تھی۔ قاضی نے مجھے بے تکلفی سے کہا: ادھر لا یہ پانچ ریال، یہ اس بوڑھی کو دے دیتے ہیں۔
قاضی صاحب بچوں کے ساتھ شفقت اور ہنسی مذاق کرنے والے انسان تھے، اور میری طرح اکثر بچے اس سے بے تکلفی محسوس کرتے تھے۔ میں نے انہیں مسکراتے ہوئے کہا؛ مگر میرے پاس تو بس یہی پانچ ہیں اور تو میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ قاضی نے کہا: اگر تو نے یہ پانچ روپے صدقہ کر دیے تو اللہ تجھے دس یا بیس بنا کر واپس کر دے گا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے مجھے پیسے صدقہ کر دینے کے لیے قائل کرنا شروع کر دیا۔ سچ پوچھیے تو میں بھی اُس کی باتوں سیاتنی قائل ہوگئی تھی کہ پیسے نکال کر بڑھیا کو دے دیے۔
قاضی کی نظریں میرے چہرے پر تھیں اور وہ پانچ کا گھاٹا ہوجانے پر میرے محسوسات پڑھ رہا تھا۔ سچ پوچھیے تو میں تقریباً رونے والی ہوئی کھڑی تھی۔ میرے لیے پانچ ریال اچھے خاصے پیسے تھے کیونکہ ابا مجھے ہفتے میں دو یا تین مرتبہ اکٹھے پانچ ریال دیا کرتے تھے۔ قاضی نے میری کیفیت کو محسوس کرتے ہوئے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور بیس ریال کا نوٹ نکال کر مجھے دیتے ہوئے کہا: میں نہیں کہتا تھا کہ فقیر کو صدقہ دینے پر اللہ تجھے تیرے پیسے دوگنے بلکہ دوگنے سے بھی زیادہ کر کے واپس کر دے گا۔
مجھے پیسے لینے میں کچھ تردد تو ہوا، بیس میرے لیے تھوڑے پیسے نہیں تھے۔ بیس اکٹھے تو مجھے بس اسی دن ہی ملنے نصیب ہوتے تھے جس دن مسلمانوں کی عید ہوتی تھی، لیکن میں نے پھر بھی قاضی کے ہاتھ سے بیس ریال تقریبا ًجھپٹتے ہوئے پکڑے اور اپنے گھر کو دوڑ لگا دی اور قاضی پیچھے کھڑا، مجھے بھاگتا دیکھتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔ میری خوشی دیدنی تھی اور جذبات چھپانے ناممکن۔ میں بس ناچتی ہی پھر رہی تھی۔
دو ہفتے کے بعد ہمارے محلے میں ایک فقیر آیا۔ مجھے قاضی کی باتیں یاد آگئیں اور میں نے بلاتوقف اور بھاگتے ہوئے جا کر اس فقیر کو پانچ ریال دے دیئے۔ اس کے بعد مجھے اپنی جان سولی پر لٹکی ہوئی محسوس ہونے لگی، میرا انتظار شروع ہوگیا کہ کب اللہ میرے پانچ کے بدلے مجھے بیس واپس لوٹاتا ہے۔ مغرب تک تو میری یہ کیفیت تھی کہ میرا دل چاہتا تھا بس کسی طرح میرے وہی پانچ ہی بغیر کسی اضافے کے واپس مل جائیں، لیکن سب عبث۔ سونے سے پہلے مجھے پکا یقین ہوچکا تھا کہ میرے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے اور میں لُٹ چکی ہوں۔
دوسرے دن دوپہر کو سکول سے واپس آتے ہوئے مجھے زمین پر کچھ پڑا ہوا نظر آیا، قیاس یہی ہوتا تھا کہ پیسے ہیں۔ نیچے جُھک کر اٹھائے تو بیس بیس ریال کے دو نوٹ تھے۔ میری خوشی دیدنی تھی اور مجھے پکا یقین ہوگیا تھا کہ اللہ تعالیٰ صدقے کے پیسے ضرور واپس کرتا ہے۔ مجھے اپنے پیسوں کے بدلے میں بیس ریال کافی لگے، میں نے بیس اپنی جیب میں ڈالے اور دوسرا بیس کا نوٹ وہیں پھینکتے ہوئے گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔
اسی دن عصر کے وقت دکان سے لوٹ رہی تھی کہ مجھے قاضی محمد مسجد سے نکلتا ہوا دکھائی دیا۔ میں نے اسے جا کر روکا اور اپنے ساتھ پیش آنے والا سارا قصہ تفصیل سے کہہ سنایا، قاضی میری باتیں سنتا ہوا مسکراتا رہا۔ اس نے مجھ سے پوچھا: اچھا، بیس ریال کا دوسرا نوٹ واپس کیوں پھینک دیا تھا؟ میں نے کہا: مجھے پتہ تھا کہ محلے کی ایک اور لڑکی نے بھی فقیر کو پانچ ریال صدقہ کیے ہیں۔ ہو نہ ہو، یہ بیس کا دوسرا نوٹ اُسی کا ہوگا، اس لیے میں نے اسے وہیں چھوڑ دیا تھا تاکہ وہ آکر اپنے پیسے اُٹھا لے۔
میری یہ بات سُن کر قاضی ہنس ہنس کر مزید دوہرا ہوگیا۔ بلکہ اُس نے تو پاس سے گزرتے ہوئے چند لوگوں کو میری بے وقوفی کا یہ ماجرا کہہ بھی سنایا، قاضی کے ساتھ دوسرے لوگ بھی ہنسنا شروع ہوگئے تھے۔ اس دن کے بعد بھی جب جب قاضی مجھے دیکھتا ہنسنا شروع کر دیتا تھا۔ مگر ایک بات تھی؛ اب اس نے مجھے اکثر پانچ یا دس ریال دینا شروع کر دیے تھے۔ کہتا: اللہ تم سے محبت کرتا ہے اور مجھے پیسے بھیجتا ہے تاکہ میں تجھے دے دیا کروں۔ اس کے بعد میری یہ پکی عادت بن گئی کہ اگر کوئی فقیر مجھ سے سوال کرے تو میں اسے جو کچھ بھی پاس ہو دے دیا کروں۔
جس دن ہم نے اسرائیل جانے کے لیے صنعاء کو چھوڑا، اس دن قاضی محمد، اس کی بیوی اور اس کی بیٹیاں ہماری وجہ سے رو رہی تھیں۔ میں نے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ اُس قاضی کی آنکھوں میں آنسو دیکھے جس کے ہونٹوں پر کبھی مسکراہٹ غائب بھی نہیں ہوا کرتی تھی۔ اب جبکہ میں بڑی ہوگئی ہوں تو مجھے رہ رہ کر ایک ایک کرکے ساری باتیں یاد آتی ہیں۔ مجھے اپنا وطن چھوڑنے کا دُکھ ہوتا ہے، ایسا وطن جس کے لوگ اللہ سے پیار کرنے والے ہیں اور اللہ ان سے پیار کرتا ہے۔