بولنا اور چپ رہنا ۔ ابویحییٰ
بولنے کی صلاحیت اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ سورہ رحمان کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے اسے جس اہتمام سے تمام نعمتوں سے پہلے گنوایا ہے، اس سے اس نعمت کی عظمت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ تاہم انسان گویائی کی یہ صلاحیت درست استعمال نہ کرے تو یہی نعمت اس کے لیے آخرت میں سخت گرفت کا سبب بن جائے گی۔ اسی لیے حضور نے متعدد احادیث میں زبان پر قابو رکھنے اور غیر ضروری بولنے کے بجائے چپ رہنے کی تلقین کی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے سماج میں اس پہلو سے لوگوں کی کوئی تربیت نہیں ہوتی۔ یہاں ہر شخص بولنے کو سب سے بڑا کام سمجھتا ہے۔ دور جدید میں اس بولنے کے عمل کو سوشل میڈیا نے نئے اور طاقتور ذرائع مہیا کر دیے ہیں۔ اب ہر شخص سوشل میڈیا پر بے تکان بولتا اور لکھتا رہتا ہے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ بولنا ایک ذمہ داری ہے۔
ایسے میں ضرورت ہے کہ لوگوں کو چپ رہنا سکھایا جائے۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ چپ رہنا کوئی سادہ عمل نہیں۔ بولنے کے لیے گلے کی طاقت چاہیے اور چپ رہنے کے لیے دماغ کی صلاحیت ضروری ہے۔ خاموشی سوچنے کی اس صلاحیت کو استعمال کرنے کا عمل ہے جو انسان کا سب سے بڑا شرف ہے۔ جب لوگ سوچتے نہیں اور بولتے رہتے ہیں تو ان کا بولنا تقابل، تجزیہ، تحلیل اورخود احتسابی جیسی اعلیٰ صفات سے خالی ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ اس بولنے میں بہت سے گناہ جیسے غیبت، بہتان، سنی سنائی بات کو آگے پہنچانا وغیرہ شامل ہوجاتے ہیں۔
بولنے کے اس دور میں لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ انسان کے ہر ہر لفظ کا احتساب ہوگا۔ اس لیے کم بولنے کا مطلب اپنے احتساب کو کم کرنا ہے اور زیادہ بولنے کا مطلب اپنے احتساب کو بڑھانا ہے۔ اور وہ شخص احمق ہے جو روزِ قیامت خود ہی اپنے احتساب میں اضافہ کروائے۔