ذریت ابراہیم اور دوسرے لوگ ۔ ابویحییٰ
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد کے دونوں گروہوں یعنی بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل کے بارے میں جو قانون ہم مختلف حوالوں سے بیان کر رہے ہیں، اس کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو دوسرے لوگ پہلے یہودیت اور اب اسلام قبول کر کے ان کے ساتھ ہوتے گئے ہیں، کیا وہ بھی اس قانون کی زد میں آتے ہیں؟
اس حوالے سے تاریخ کا جواب یہ ہے کہ بالکل ایسا ہی ہے۔ یہود کی کتابوں میں پردیسیوں یا ملی جلی بھیڑ کے نام سے کئی مقامات پر جن لوگوں کا ذکر ہے یہ وہی لوگ تھے جو نسلی طور پر حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے نہ تھے بلکہ دیگر اقوام سے شرک چھوڑ کر یہودیوں کے ساتھ آملے تھے۔ چنانچہ تاریخ میں جو کچھ یہود کے ساتھ ہوا، وہی ان کے ساتھ بھی ہوتا رہا۔ یہی ان عجمیوں کے ساتھ ہوا جو اسلام لا کر عربوں کی سپر پاور ریاستوں کے ماتحت رہتے تھے۔
عربوں کے زوال کے ساتھ ایک دوسری چیز بھی نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے۔ وہ یہ کہ کوئی مسلم گروہ اگر اسلام ہی کو اپنی شناخت بنا لے اور خود کو دنیا کے سامنے اسی حیثیت میں پیش کرے تو اس کو امت اور انسانیت کی امامت بھی دے دی جاتی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عربوں کے بعد ترک ایک بڑی قوم کے طور پر ابھرے۔ تاہم ترک سلطان سلیم نے جیسے ہی اپنا منصب خلیفۃ المسلمین قرار دیا، ترک ایک علاقائی طاقت سے عالمی طاقت اور سپر پاور بن گئے اور سلطان عالیشان کے دور میں دنیا کے بحر و بر پر ان کا سکہ چلنے لگا۔ تاہم جب ان کا اخلاقی رویہ غیر ذمہ دارانہ ہوگیا تو اِسی تیزی سے ان کو زوال آنا شروع ہوا اور ان کے نام سے لرزنے والی یورپی قوتیں ان پر چڑھ دوڑیں اور ان کو مغلوب کر دیا۔