ذوالقرنین کا آسمانوں کی طرف سفر ۔ ابویحییٰ
سوال
السلام علیکم، سر کچھ اسکالرز کے مطابق ذوالقرنین کا سفر انٹرگلیکٹل تھا۔ سورہ کہف آ یت 84 میں لفظ ’’سببا‘‘ کے معنی اسباب کے نہیں بلکہ اوپر کی طرف یعنی آسمان کی طرف جانے کے ہیں۔ سورہ حج آیت 15 اور سورہ ص آیت 10 میں یہی معنی ہیں۔ ذوالقرنین کی پہلی مہم غروب آفتاب کی طرف نہیں بلکہ عَینٍ حَمِئَۃٍ مطلب بلیک ہول کے قریب تھی۔ دوسری مہم نیبولا کے قریب تھی جہاں سے ہر ستارے کی ابتدا ہوتی ہے۔ وہاں کے لوگ جس سیارے یا جگہ رہ رہے تھے وہاں سورج اور ان کے درمیان پردہ یعنی ’’اوزون لیئر‘‘ نہ تھی۔ تیسری مہم بھی کسی اور سیارے میں تھی جس کے لوگوں کو الیکٹرو میگنیٹک ویوز سے جو کہ لوھا تانبہ سے بنائی گئی تھی۔ دیوار بنا کے یاجوج ماجوج سے محفوظ کیا گیا۔ سر کچھ پوائنٹس لوجیکل لگتے ہیں جیسے کہ سببا کا مطلب اور سورج اور لوگوں میں پردہ یعنی اوزون حائل نہ ہونا۔ آپ اس ساری سائنسی توجیہ کو کیسے لیتے ہیں اور ہمیں اس کی راہنمائی فرمائیں۔ اللہ آپ کو اس کا بہترین اجر عطا فرمائے۔ آمین۔ عائشہ امبر
جواب
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
ذوالقرنین کا ذکر قرآن مجید کی سورہ کہف میں امتحان کے طور پر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کیا گیا ہے۔ یعنی وہ تم سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھ رہے ہیں، (18:83)۔ اس سے یہ بات واضح ہے کہ جس شخصیت کے متعلق پوچھا جارہا ہے وہ کم از کم پوچھنے والوں کے لیے ایک معلوم تاریخی شخصیت تھی۔ذوالقرنین کا مطلب دو سینگوں والا ہوتا ہے۔ قدیم صحیفوں میں اس کا مصداق واضح طور پر قدیم ایرانی سلطنت کا حکمران سائرس اعظم تھا جسے کورش بھی کہا جاتا ہے۔ بائبل میں اس کو خورس کہا گیا ہے اور دو سینگوں والے کے لقب سے اس کو بیان کیا گیا ہے۔
’’خداوند اپنے ممسوح خورس کے حق میں یوں فرماتا ہے کہ میں نے اُس کا داہنا ہاتھ پکڑا کہ امتوں کو اُس کے سامنے زیر کروں اور بادشاہوں کی کمریں کھلوا ڈالوں۔‘‘(یسعیاہ۴۵:۱)
’’تب میں نے آنکھ اٹھا کر نظر کی اور کیا دیکھتا ہوں کہ دریا کے پاس ایک مینڈھا کھڑا ہے جس کے دو سینگ ہیں۔ دونوں سینگ اونچے تھے، لیکن ایک دوسرے سے بڑا تھا اور بڑا دوسرے کے بعد نکلا تھا۔ میں نے اُس مینڈھے کو دیکھا کہ مغرب و شمال و جنوب کی طرف سینگ مارتا ہے، یہاں تک کہ نہ کوئی جانور اُس کے سامنے کھڑا ہوسکا اور نہ کوئی اُس سے چھڑا سکا۔‘‘(دانی ایل ۸:۳-۴)
سائرس کو پچھلے صحیفوں میں دو سینگوں والا یا ذوالقرنین اس لیے کہا گیا کہ اس نے اپنے زمانے میں مغرب و مشرق میں پھیلی ہوئی دو عظیم سلطنتوں کوفتح کرکے پوری متمدن دنیا میں اپنا اقتدار قائم کرلیا تھا۔جبکہ شمال کی سمت تیسری مہم کے دوران میں جہاں اس نے اپنی دیوار تعمیر کی تھی، اس کا انتقال ہوگیا تھا۔
انھی فتوحات کے دوران میں جب سائرس نے عراق پر حملہ کیا تو وہاں قیدی بنا کر رکھے گئے یہودیوں کو اسیری سے نجات دلوائی تھی جس کے بعد یہود اپنے وطن لوٹے اور دوبارہ ہیکل کی تعمیر کی۔یہ وہ پس منظر ہے جس میں کفار مکہ نے ذوالقرنین سے متعلق یہ سوال یہود کے کہنے پر امتحان کی غرض سے پوچھا تھا۔
باقی جس رائے کا آپ نے ذکر کیا ہے نہ وہ زبان و بیان کے معیارات پر پوری اترتی ہے نہ معلوم تاریخ کے مطابق ہے۔ تاریخ میں تو کوئی بادشاہ ایسا گزرا ہی نہیں جو آسمانوں پر اس طرح سفر کرکے گیا ہو۔ رہی زبان و بیان تو اس کے لیے یہ واضح رہے کہ عربی زبان میں سبب مطلب ذریعہ ہے۔ اصلاحی صاحب سورہ کہف کی انھی آیات کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’سَبَبَ‘ کے اصل معنی وسیلہ و ذریعہ کے ہیں۔ یہاں ’مِنْ کُلِّ شَیْءٍ سَبَبًا‘ کا مطلب یہ ہے کہ اس کی مملکت میں ہر قسم کے وسائل و ذرائع (RESOURCES) موجود تھے۔
اس بات کو مزید واضح کرنے کے لیے ہم چند مترجمین کا کیا ہوا سورہ الکہف آیات 84 تا 85 کا ترجمہ ذیل میں نقل کیے دیتے ہیں:
ہم نے اس کو زمین میں اقتدار بخشا تھا اور ہر طرح کا ساز و سامان عطا کیا تھا۔ اس نے ایک مہم کا سامان کیا۔(مترجم ،مولانا مودودی)
ہم نے اُس کو زمین میں اقتدار عطا فرمایا تھا اور اُس کو ہر قسم کے اسباب و وسائل بخشے تھے۔پھر اُس نے (ایک مرتبہ) ایک مہم کا سامان کیا۔(مترجم ،جاوید احمد صاحب غامدی)
یقیناً ہم نے اسے زمین میں اقتدار دیا تھا اور ہر چیز کا ایک ذریعہ اسے عطا کیا تھا۔ تو اس نے ایک ذریعہ اختیار کیا۔ (مترجم ،مفتی تقی عثمانی)
اب ذرا ان تراجم میں اسباب کا ترجمہ ذریعہ، وسائل اور سامان کی جگہ آپ کا بیان کردہ مفہوم یعنی اوپر کی طرف یعنی آسمان کی طرف جانا رکھ دیجیے اور پھر دیکھیے کہ کیا ہوتا ہے۔ رہی سورۃ الحج اور سورۃ ص کی آیات تو وہاں بھی اس لفظ کا مطلب آسمان کی طرف جانا ہرگز نہیں ہے۔ طوالت کا خوف نہ ہوتا تو ہم دونوں آیات کی تفصیل بھی کر دیتے۔
آخری گزارش یہ ہے کہ اس طرح کی آیات حضور کی سچائی کا ایک ناقابل تردید ثبوت ہوتی ہیں۔ حضور ایک امی تاجر تھے جو متمدن دنیا سے دور مکہ کے شہر میں رہتے تھے۔ اعلان نبوت سے قبل آپ کو پچھلی الہامی کتابوں کا کوئی علم نہیں تھا نہ علم آپ کی دلچسپی کی چیز تھا۔ سوائے بنی اسرائیل کے علماء کے کسی شخص کی رسائی قدیم صحف سماوی تک نہیں تھی۔ یہ وہ پس منظر تھا جس میں حضور سے ذوالقرنین کے بارے میں سوال کیا گیا۔ حضور اگر نبی نہ ہوتے اور اللہ تعالیٰ آپ کو وحی نہ کر رہے ہوتے تو حضور کے لیے اس سوال کا جواب دینا ممکن نہ تھا۔ مگر آپ نے ذوالقرنین کے متعلق تفصیل سے جواب دے دیا۔ اس سے بڑھ کر اس بات کا ثبوت کیا ہوگا کہ یہ کسی انسان کا نہیں بلکہ خدا کا کلام ہے۔
حضور کے اس معجزے کو سمجھنے اور دل سے قرآن کے الہامی کلام ہونے پر ایمان لانے کے بجائے قرآن سے سائنسی حقائق دریافت کرنا کوئی معقول رویہ نہیں ہے۔ امید ہے کہ بات واضح ہوگئی ہوگی۔
والسلام
ابویحییٰ