زیادہ نمک ۔ ابویحییٰ
انسانی شخصیت میں جذبات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ رحم، ہمدردی، محبت وہ جذبات ہیں جو انسانی وجود کو وہ مٹھاس عطا کرتے ہیں جس کے بغیر زندگی کا ہر رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے۔ ان میٹھے جذبوں کے علاوہ انسانی شخصیت میں کچھ جذبات ایسے ہوتے ہیں جو نمک کی طرح ہوتے ہیں۔ یعنی زندگی ان کے بغیر بھی پھیکی اور نامکمل ہی ہوتی ہے، لیکن ان کی خفیف مقدار بھی وجود انسانی میں زیادہ ہوجائے تو شخصیت تلخ ہوجاتی ہے۔ پھر ایسا انسان اسی طرح دوسروں کے لیے ناقابل قبول اور ناپسندیدہ ہوجاتا ہے جس طرح وہ سالن جس میں نمک تیز ہوجائے۔
ایسا ہی ایک جذبہ غصے کا ہے۔ غصہ انسانی شخصیت کا ایک لازمی جز ہے۔ غیرت، حمیت، بہادری اور استقامت کے خاندان کا ایک فرد ہونے کے ناطے اس کی بڑی قدر و قیمت ہے۔ مگر جب یہ جذبہ چھوٹے بڑے کی تمیز اور موقع محل کی نزاکت کو فراموش کر کے ظاہر ہونے لگے، محض اپنی جھنجھلاہٹ کے اظہار کا ایک ذریعہ بن جائے، انسان کی عادت اور اس کے روزمرہ کا معمول بن جائے، جب یہ اعصاب پر قابو اور عقل کو معطل کرکے وجود کا احاطہ کرکے، جب یہ دوسروں کی تذلیل و توہین اور ان پر ظلم و زیادتی کا ایک ہتھیار بن جائے تو پھر اس کا سارا حسن بدصورتی، شوریدگی اور تلخی میں بدل جاتا ہے۔ یہ وہ نمک بن جاتا ہے جو لذیذ سالن کو زہر ہلاہل بنا دیتا ہے۔ اور جس طرح شدید بھوک میں بھی ایسا سالن نہیں کھایا جاتا اسی طرح تمام تر مطلوبیت اور ضرورت کے باوجود ایسے لوگ نامطلوب ہوجاتے ہیں۔
انسان تنہا نہیں جی سکتے۔ مگر کسی ایسے انسان کے ساتھ بھی نہیں جی سکتے جسے اپنے جذبات پر قابو نہ ہو۔ اس لیے ہر انسان کو اپنے غصے پر قابو پانا سیکھنا چاہیے۔ اس میں مشکل ہو تو کسی سمجھدار شخص یا کسی ماہر نفسیات سے رجوع کرنا چاہیے۔ اس کے بغیر غصیلا انسان اپنی ہر خوبی کے باوجود لوگوں کو نامطلوب رہے گا۔ وہ اپنا بھی نقصان کرے گا اور دوسروں کے لیے بھی باعث اذیت ہوگا۔