زکوٰۃ اور نذر ۔ ابویحییٰ
ہمارے ہاں زکوٰۃ کو ایک بہت اہم عبادت کے طور پر ادا کیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ جو نماز نہیں بھی پڑھتے، زکوٰۃ بڑی پابندی سے دیتے ہیں۔ تاہم ہمارے ہاں لوگ زکوٰۃ کو غریبوں کی مدد کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔ انہیں نہیں معلوم کہ زکوٰۃ اصل میں کیا ہے اور کیوں ادا کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے رمضان کا مہینہ مقرر کرلیا گیا ہے، اس لیے مناسب محسوس ہوتا ہے کہ اس موقع پر زکوٰۃ کی حقیقت سے متعلق لوگوں کی کچھ رہنمائی کر دی جائے۔
زکوٰۃ اپنی حقیقت کے اعتبار سے نذر ہے۔ نذر کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے مال کا ایک حصہ اپنے معبود کو راضی کرنے کے لیے بطور نذرانہ اس کے حضور پیش کر رہا ہے۔ قدیم زمانے میں جب شرک کا غلبہ تھا تو لوگ مندروں اور معبدوں میں جا کر اپنا مال مختلف شکلوں میں بتوں کی بھینٹ چڑھاتے تھے اور پھر یہ مال معبد کے خدام وہاں آنے والے زائرین کی ضروریات پر خرچ کرتے تھے۔
اسلام نے اس صورتحال کو تبدیل کیا۔ خدا کے حضور نذر کو زکوٰۃ کی مستقل عبادت کی شکل دے کر اسے نظم اجتماعی، غریبوں کی مدد اور ضرورتمندوں کے لیے خاص کر دیا۔ تاہم اس کے پیچھے جو روح اور جذبہ ہے وہ اسی طرح باقی ہے۔ آج بھی جب کوئی شخص زکوٰۃ ادا کرتا ہے تو وہ کسی انسان کو کچھ نہیں دے رہا ہوتا، بلکہ اپنا سر اور دل جھکا کر، اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر، لہجے میں عاجزی اور پستی پیدا کر کے دراصل اللہ تعالیٰ کو پیش کرتا ہے۔
البتہ جو شخص سر اُٹھا کر، احسان جتلا کر، دبنگ لہجے کے ساتھ انسانوں کو زکوٰۃ دینے کی کوشش کرتا ہے، اس کا مال تو خرچ ہو جاتا ہے، مگر پروردگار عالم کی بارگاہ سے ایسے شخص کو سند قبولیت نہیں ملتی۔ اس لیے کہ خدا کی بارگاہ میں کوئی گردن اس قابل نہیں کہ بلند ہوکر شرف قبولیت حاصل کرسکے۔ اس کے حضور صرف عاجزی اور پستی قبول ہوتی ہے۔
زکوٰۃ دینے اور انفاق کرنے والوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ انسانوں کو دے رہے ہیں تو بلاشبہ سر اُٹھا کر دیں، لیکن مال اگر رب کی نذر کررہے ہیں تو سر جُھکا ہوا رکھیں۔ یہی درِ قبولیت کا راستہ ہے۔