استاد کا مقام ۔ ابویحییٰ
کل رات خالد ادریس صاحب (سڈنی) کا فون آیا۔ وہ ہسپتال سے بات کر رہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ کچھ دیر قبل ان کے والد کا انتقال ہوگیا ہے۔ اپنے والد کے متعلق انھوں نے بتایا کہ وہ کراچی پولی ٹیکنک میں پینتیس برس استاد رہے اور ہزارہا طالب علموں نے ان سے علم و ہنر سیکھ کر اپنی زندگی کا آغاز کیا۔ وہ ایک انتہائی مخلص استاد تھے اور کم ہی کلاس سے غیرحاضر ہوتے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے وقت بھی ان کی دو تین برس کی چھٹیاں موجود تھیں جو انھوں نے نہیں لی تھیں۔ ان کے اخلاص اور انکسار کی بنا پر تمام طلبا ان کی بہت عزت کرتے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ استاد کسی معاشرے کے تن مردہ میں زندہ خلیے پیدا کرنے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ استاد اگر اچھے، مخلص اور دیانت دار ہوں تو وہ تربیت کا سب سے موثر ادارہ تعمیر کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں اساتذہ کا یہ ادارہ ہمیشہ بہت فعال رہا تھا۔ ہماری نسل شاید وہ آخری نسل تھی جو زندگی میں اپنے مقام کا کریڈٹ اپنے استاد کو دیتی ہے۔ مگر دور جدید میں ہمارا عظیم ترین المیہ یہ ہے کہ یہ ادارہ اب کم و بیش تباہ ہوچکا ہے۔ اب استاد کے مقام پر کھڑے ہوئے بیشتر لوگ وہی حیثیت رکھتے ہیں جو دیگر سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے ملازمین کی ہوتی ہے۔
ہمیں اگر اپنے معاشرے کو تباہ ہونے سے بچانا ہے تو ہمیں اساتذہ کے معیار، مقام اور مرتبہ ہر چیز کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں اپنے بہترین لوگوں کو اس شعبے میں لانا ہوگا۔ ان کا معیار انتخاب، سفارش اور رشوت کے بجائے سخت ترین میرٹ کو بنانا ہوگا۔ ان کی عزت اور وقار کی بحالی کو اپنا اہم ترین مسئلہ بنانا ہوگا۔ ان کو بہترین ممکنہ سہولیات اور مراعات فراہم کرنا ہوں گی۔ سب سے بڑھ کر یہ جذبہ بحال کرنا ہوگا کہ استاد باپ ہوتا ہے جو ایک دو پایہ حیوان کو اعلیٰ انسان بناتا ہے۔ استاد کی اس حیثیت کو بحال کیے بغیر معاشرے میں کسی خیر و فلاح کا کوئی امکان نہیں۔