Think and Thank – Abu Yahya
کسی دانشور نے کیا خوب کہا ہے کہ انسانی معاشروں کو تمام جنگوں اور بیماریوں نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا نقصان ان کے اس رویے نے انہیں پہنچایا ہے کہ وہ اپنے پاس موجود نعمتوں کو نعمت نہیں سمجھتے بلکہ دوسروں کے پاس موجود نعمتوں کو نعمت سمجھتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی ان گنت نعمتوں میں جی رہا ہوتا ہے۔ مگر اس کا حال یہ ہے کہ اس کی نظر ہمیشہ صرف انہی چیزوں کی طرف اٹکی رہتی ہے جو اس کے پاس نہیں ہوتیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان ہمیشہ احساس محرومی میں جیتا ہے۔ وہ چیزوں کے حصول کے لیے اپنی طاقت سے زیادہ جدوجہد کرکے ذہنی سکون گنواتا ہے اور کبھی صحت اور طاقت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ یہی وہ نقصان ہے جسے اوپر اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ساری جنگیں اور بیماریاں بھی انسانوں کو اتنا نقصان نہیں پہنچاتیں جتنا یہ رویہ پہنچاتا ہے۔
اس رویے کا مزید نقصان یہ ہے کہ انسان اس اطمینان اور خوشی سے بھی محروم ہوجاتا ہے جو حاصل شدہ نعمتوں سے اسے مل سکتا تھا۔ کیونکہ اس نے تو کبھی انہیں نعمت سمجھا ہی نہیں۔ لوگ دولت کے پیچھے بھاگتے رہے اور صحت جیسی قیمتی نعمت کو نعمت نہیں سمجھا۔ گھر اور گاڑی کے پیچھے بھاگتے رہے اور ہاتھ، پاؤں اور آنکھ کان جیسی انمول نعمت کو نہیں سمجھا۔ یہ نعمتیں انسان کو اسی وقت نعمت لگتی ہیں کہ جب انسان ان سے محروم ہوجاتا ہے۔ تب انسان کو ان کی قدر و قیمت کا احساس ہوتا ہے، مگر اکثر تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
اس رویے کا علاج انگریزی میں بڑی خوبی سے بیان کیا جاسکتا ہے۔ یعنی Think and Thank۔ سوچو، تفکر کرو اور احساس کرو تو تمھیں معلوم ہوگا کہ تم ہر حال میں بہت کچھ پائے ہوئے ہو۔ یہی پانے کا احساس انسان میں شکر گزاری جگاتا ہے اور اسے ذہنی اور قلبی سکون عطا کرتا ہے۔ اس کے سوا ہر دوسرا راستہ بے چینی اور پریشانی کا راستہ ہے۔