تہذیب و شائستگی ۔ ابویحییٰ
تہذیب و شائستگی ایک اعلیٰ ترین انسانی وصف ہے۔ ہماری ثقافت میں لوگ ہمیشہ اس شائستگی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے میں نے کافی عرصے قبل مولانا مودودی کا ایک واقعہ سنا۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک دفعہ مولانا کے ہاں رات میں کوئی چور آگیا۔ صبح ہوئی تو مولانا نے اپنی مجلس میں اس واقعہ کا ذکر کیا۔ لیکن جہاں کہیں چور کا ذکر آیا انہوں نے ”چور صاحب‘‘ کہہ کر اس چور کا تذکرہ کیا۔
یہ شائستگی جس کا عکس مولانا مودودی کے الفاظ ’’چور صاحب‘‘ میں جھلکتا ہے، کوئی اتفاقی امر نہ تھا بلکہ ہماری تہذیب و ثقافت کے عمومی رویے کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس ثقافت کا سب سے بڑا ثبوت ہماری زبان ہے۔ ہماری زبان دنیا کی ان گنی چنی زبانوں میں سے ہے جس میں کسی عمر، علم، رشتے اور مقام میں بڑے کسی بھی شخص کے لیے واحد کے بجائے جمع کا اسلوب استعمال ہوتا ہے۔ مثلا عربی یا انگریزی میں کسی کے متعلق یہ کہنا مقصود ہو کہ اس نے سیب کھایا تو انگریزی میں He ate the apple اور عربی میں کہا جائے گا: اکل التفاحہ۔ سیب کھانے والا اگر کوئی بڑا ہو تو عربی اور انگریزی کا اسلوب یہی رہے گا لیکن اردو میں اس نے سیب کھایا کے الفاظ بولنا تہذیب سے عاری بات سمجھا جائے گا۔ صحیح جملہ’انہوں نے سیب کھایا‘ ہوگا۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں اب یہ تہذیب ختم ہورہی ہے۔ ’’چور صاحب‘‘ کی توقع تو ہمیں لوگوں سے نہیں رکھنی چاہیے مگر مذہبی اور سیاسی اختلافات کی بنیاد پر ہمارے ہاں ایک دوسرے کے بارے میں جو سخت ترین زبان استعمال ہوتی ہے، وہ بلاشبہ ہماری تہذیبی روایات کی موت ہے۔ جو لوگ یہ کام کر رہے ہیں وہ نفرت کے بیج بو رہے ہیں۔ یہ بیج جب درخت بنیں گے تو درندگی کے وہ کانٹے اگائیں گے جن کی فصل آج ہماری قوم کاٹ رہی ہے۔