تین نسلوں میں ۔ ابویحییٰ
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشا کی نماز ادا کی اور ارشاد فرمایا کہ آج روئے زمین پر جتنے انسان زندہ ہیں سو سال بعد ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا، (بخاری، رقم 601)۔ اس بات سے سامعین میں سے بعض کو یہ غلط فہمی ہوگئی کہ حضور قیامت کے آنے کا ذکر کر رہے ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ زندگی کاعارضی پن واضح کرنے ایک کا بڑا موثر طریقہ تھا۔
انسانوں کی اوسط عمر عام طور پر ساٹھ ستر برس ہوتی ہے۔ جبکہ انفرادی طور پر سو برس سے زیادہ بالعموم کوئی شخص نہیں جی پاتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سن 1914 میں جو لوگ پیدا ہوئے وہ آج 2014 میں موجود نہیں اور جو آج ہیں ان میں سے کوئی 2114 میں نہیں ہوں گے۔ زندگی کی ناپائیداری کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ سو برس میں انسان ہی نہیں مرتا تیسری نسل میں اس کا نام و نشان بھی مٹ جاتا ہے۔
ایک شخص جب اوسط عمر میں مرتا ہے تو وہ اپنی اولاد کو اپنے سامنے پروان چڑھتا دیکھتا ہے۔ اس کی اولاد کی اس سے بڑی گہری وابستگی ہوتی ہے۔ اس کے مرنے پر اولاد کو بہت دکھ اور غم ہوتا ہے۔ لیکن چند برسوں میں یہ اولاد اس کا بنایا ہوا گھر چھوڑ چکی ہوتی ہے۔ اس کی یادیں مدھم ہوجاتی ہیں۔ اس کی برسی فراموش کر دی جاتی ہے۔
جب پوتے اور نواسے بڑے ہوتے ہیں تو ان کے ذہن میں بزرگوں کے بس دھندلے سے نقوش ہوتے ہیں۔ یہ نقوش بس اسی وقت تازہ ہوتے ہوتے ہیں جب کسی کو دفنانے قبرستان جانا ہوتا ہے اور باپ بیٹے کو بتاتا ہے کہ یہ اس کے دادا کی قبر ہے۔ مگر پوتے کی اولاد تک قبر کا نشان بھی مٹ جاتا ہے اور یوں تیسری نسل میں انسان کا نام و نشا ن بھی مٹ جاتا ہے۔ کتنا نادان ہے وہ انسان جو اِس دنیا کے لیے جیتا ہے جہاں سو سال میں وہ خود اور تین نسلوں میں اس کا نام و نشان بھی مٹ جائے گا۔