تاریخ کا سبق ۔ ابویحییٰ
اردوزبان کو وجود میں آئے چند صدیاں ہی گزری ہیں، مگرشعر و ادب کے لحاظ سے دنیا کی کم ہی زبانیں اس کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔ اتنے مختصر عرصے میں اتنی اعلیٰ شعری روایت کی ایک بڑی وجہ برصغیر میں مغلیہ سلطنت کے دور زوال کا وہ ماحول تھا جس میں اعلیٰ ترین ذہانتوں کے لیے مشغولیت کا سب سے بڑا میدان شعر و شاعری ہی کا تھا۔
اٹھارہویں صدی کا یہ زمانہ وہ تھا جب دنیا میں انسانی تاریخ کی سب سے بڑی تبدیلی آرہی تھی۔ یعنی یورپ میں 1760 میں صنعتی انقلاب شروع ہوچکا تھا۔ یہ صنعتی انقلاب ایک دم سے نہیں آیا تھا۔ صنعتی انقلاب سے قبل اہل علم و دانش کی زبردست سماجی جدوجہد کے نتیجے میں یورپ میں ایک زبردست فکری انقلاب آچکا تھا۔ اس انقلاب کی بنا پر اعلیٰ ترین ذہانتوں کی دلچسپی کا مرکز سائنسی علوم بن چکے تھے۔ ان سائنسی علوم کی مدد سے اہل مغرب نے مادے کو مشین میں بدل کر طاقت کا توازن اس طرح اپنے حق میں کر لیا کہ دنیا میں کوئی ان کے مقابلے کا نہ رہا۔ اس کی ایک مثال برطانیہ کی عظیم سلطنت تھی۔ سائنس کی اس ترقی کے نتیجے میں ایک چھوٹے سے جزیرے میں رہنے والی یہ قوم نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا کے کم و بیش ہر براعظم میں اپنا اقتدار قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
علم کی یہی وہ طاقت تھی جس نے برطانیہ کے دور زوال میں اس کو مکمل تباہی سے بچا لیا تھا۔ پہلی جنگ عظیم میں گرچہ برطانیہ فتح یاب رہا تھا، مگر اس کی طاقت بڑی حد تک ختم ہوچکی تھی۔ برطانیہ ابھی سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ ہٹلر نے دو دہائیوں کی مختصر مدت کے اندر ہی جرمنی کو ایک نئی طاقت بنانے کے بعد 1939 میں دوسری جنگ عظیم شروع کر دی۔ ہٹلر کی فوجوں نے انتہائی برق رفتاری کے ساتھ پولینڈ، چیکو سلواکیہ، یوگو سلاویہ، ہنگری، فن لینڈ، آسٹریا، بلجیم، ناورے، سوئیڈن،ہالینڈ اور فرانس پر قبضہ کرلیا۔
یہ وہ وقت تھا کہ برطانیہ پر جرمنی کا قبضہ چند دنو ں کی بات لگ رہی تھی۔ برطانیہ اور فرانس کے درمیان سمندر حائل ہونے کی بنا پر ہٹلر نے یہ فیصلہ کیا کہ فوجیں بھیجنے سے قبل اپنی فضائیہ یعنی لفٹ وافے(Luftwaffe)کے ذریعے سے برطانیہ کی کمر توڑدے۔ یہ کم وبیش وہی طریقہ ہے جسے موجودہ دور میں امریکہ نے عراق اور افغانستان میں استعمال کیا تھا۔ ستمبر 1940 میں فضائی حملہ شروع ہوا۔ اس زمانے میں لفٹ وافے کی فضائی طاقت برطانوی فضائیہ سے کہیں زیادہ تھی۔ یہ بات کم وبیش یقینی تھی کہ انسانی تاریخ کی اس سب سے بڑی فضائی جنگ میں برطانیہ کو شکست ہو جائے گی۔
مگر عین وقت پر جدید ترین ریڈار کی طاقت برطانیہ کے کام آئی۔ برطانیہ اس وقت ریڈار ٹیکنالوجی میں دنیا میں سب سے آگے تھا۔ چنانچہ اس نے اپنی پوری سرحد پر ریڈار ٹاور لگا دیے جنھیں چین ہوم کا نام دیا گیا۔ جرمنی کو ان ریڈاروں کی طاقت کا بالکل اندازہ نہ تھا۔ یہ ریڈار جرمنی کی طاقت ور فضائیہ کے ہر حملے کی اطلاع بروقت برطانوی فضائیہ کو دے دیتے۔ جس کے نتیجے میں ہر بڑے حملے سے پہلے ٹھیک اسی جگہ برطانوی فضائیہ جرمنی کا مقابلہ کرنے کے لیے موجود ہوتی۔ یہ ریڈار سسٹم نہ ہوتا تو جرمنی کی طاقتور فضائیہ برطانوی سرزمین کو تہس نہس کر دیتی۔
گو اس جنگ میں برطانیہ کو بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ لندن جیسا عظیم شہر ملبے کا ڈھیر بن گیا۔ فوجی اور سویلین نقصان بھی بہت ہوا۔ مگرزیادہ نقصان جرمنی کا ہوا جس کے 2550 طیاروں میں سے 1977 تباہ ہوگئے جبکہ برطانیہ کے1963 طیاروں میں سے 1744 تباہ ہوئے۔ ریڈار سسٹم کی بنا پر آخر کار جرمنی کا اپنا نقصان اتنا بڑھا کہ آٹھ ماہ بعد مئی 1941 میں جرمنی کو پسپا ہو کر پیچھے ہٹنا پڑا۔ اس کے بعد ہٹلر دوبارہ برطانیہ پر حملہ نہیں کرسکا۔ لیکن اگر ریڈار سسٹم نہ ہوتے تو عددی اور معیاری طور پر بہتر جرمنی فضائیہ برطانوی فضائیہ کو شکست دے کر تاریخ کا رخ موڑ چکی ہوتی۔
مغربی ممالک میں آج کے دن تک علم و ٹیکنالوجی میں ترقی کا یہ سفر جاری ہے۔ انھوں نے اس عظیم جنگ سے مزید یہ سبق سیکھا کہ جنگ اچھی چیز نہیں۔ کم از کم اپنی زمین پر جنگ لڑنا بہت بڑی حماقت ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہم ابھی بھی وہیں کھڑے ہوئے ہیں جہاں اٹھارہویں صدی میں کھڑے تھے۔ فرق صرف یہ ہوا ہے کہ شعر وشاعری کے بجائے ہماری بیشتر ذہانتیں سیاسی اور مذہبی انتہا پسندی کی نذر ہو رہی ہیں۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ سماجی اور معاشی طور پر ہمارا معاشرہ بدترین حالات سے گزر رہا ہے۔ ہماری اقدار تباہ ہو رہی ہیں۔ ہمارے ادارے برباد ہو رہے ہیں۔ عام لوگوں کے لیے بنیادی انسانی ضروریات پوری کرنا مشکل ہوچکا ہے۔ نوجوانوں کے لیے تعلیم، روزگار اور اس کے نتیجے میں شادی جیسی لازمی ضروریات کا حصول بہت مشکل ہوچکا ہے۔ عام آدمی کے لیے صحت سے لے کر تفریح تک کسی چیز میں معیاری خدمات کا حصول ایک خواب بن چکا ہے۔
اس صورتحال کو بدلنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ وہ یہ کہ ہم اپنی ذہانتوں کا رخ انتہا پسندانہ مذہبی اور سیاسی افکارسے موڑ کر سماجی اور سائنسی علوم کی طرف موڑیں۔ یہ ایک مشکل جدوجہد ہے۔ مگر یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہمارا سماج ایک بہتر جگہ پر آسکتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ بڑے اہل علم کی طرف سے انتہا پسندانہ افکار پر علمی تنقید کرکے ان کی بے وقعتی کو واضح کر دیا گیا ہے بلکہ عملی طور پر بھی لوگوں نے یہ دیکھ لیا ہے کہ انتہا پسندانہ خیالات آخر کار کس طرح ملک کو دہشت گردی اور خونریزی کا شکار کردیتے ہیں۔ اسی سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے برسوں میں ہماری ذہانتوں کا رخ انتہا پسندی کے بجائے سماجی اور سائنسی ترقی کی سمت ہوگا۔