اہل علم و دانش کی سرپرستی ۔ ابویحییٰ
افراد جس طرح دماغ سے سوچتے ہیں، قوموں کے لیے سوچنے کا ذریعہ ان کے اہل علم ودانش ہوتے ہیں۔ یہ اہل علم ودانش غور و فکر کرتے ہیں اور اپنے نتائجِ فکر کو کتابوں کی شکل میں بیان کرتے ہیں۔ پاکستان میں بدقسمتی سے کتابوں کے پڑھنے کا رواج ہے اور نہ تحقیقی اداروں کا کوئی چلن عام ہے کہ کوئی ذہین شخص معاشی ضروریات سے بے نیاز ہوکر اپنی زندگی علم و تحقیق میں لگائے اور قوم کی آگہی میں اضافہ کرے۔ چنانچہ پاکستان میں علم و دانش کی روایت جڑ نہیں پکڑ سکی۔
اس کی جگہ یہ سانحہ ہوا ہے کہ اہل صحافت قوم کی فکری قیادت سنبھال چکے ہیں۔ وہ خبریں لکھتے لکھتے پہلے کالم نگار اور اب ٹی وی کے مبصر بھی بن گئے۔ قوم اپنی صبح کا آغاز ان کے کالم سے کرتی اور رات کو ان کے تجزیے سنتے سنتے نیند کی آغوش میں چلی جاتی ہے۔چنانچہ اب جو وہ سوچتے ہیں قوم وہی سوچتی ہے اور جو وہ دکھاتے ہیں قوم وہی دیکھتی ہے۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ کرنٹ افیئرز اور سیاست میں جینا اہل صحافت کی پیشہ ورانہ مجبوری ہے۔ چنانچہ اپنی طرح انھوں نے پوری قوم کو بھی کرنٹ افیئرز کا دلدادہ اور سیاست زدہ بنا دیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کرنٹ افیئرز اور سیاست ہمیشہ تاریخی اورسماجی عوامل کے تابع ہوتی ہے۔ان چیزوں کا ادراک صرف اہل دانش کو ہوتا ہے نہ کہ اہل صحافت کو۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قوم کو اکثر مسائل کا علم اسی وقت ہوتا ہے جب وہ کرنٹ افیئرز بن کر سامنے آتے ہیں۔ مثال کے طور پر لوڈ شیڈنگ کے مسئلے کا علم قوم کو اس وقت ہوا جب عملاً ملک میں بجلی ناپید ہوگئی۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ ہمارے ملک میں ہر مسئلے کا علم ہمیں اس وقت ہوتا ہے جب وہ سر پر آجاتا ہے۔
اس صورتحال سے اگر نکلنا ہے تو ہمیں اہل علم ودانش کی قدر افزائی کرنی ہوگی ورنہ ایک روز مشرقی پاکستان جیسے کسی سانحے کی اطلاع ہمیں اس وقت ملے گی جب وہ سر پر آکھڑا ہوگا۔