تقویٰ، شکر اور رمضان ۔ ابویحییٰ
قرآن مجید میں سورہ بقرہ کی آیات ١۸۳ تا ١۸۷ میں روزے کا قانون تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ ان آیات میں دو بڑی اہم باتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ تم روزہ رکھ کر متقی یعنی اللہ سے ڈر کر اس کی نافرمانی سے رکنے والے بن جاؤ اور دوسرے یہ کہ تم شکر گزار بنو۔
ان میں سے پہلی چیز یعنی تقویٰ روزہ کا مقصد اور دوسری چیز یعنی شکر گزاری روزے کی حقیقت ہے۔ مقصد اور حقیقت کا فرق یہ ہوتا ہے کہ مقصد کسی عمل کو کرنے کے بعد پایا جاتا ہے جبکہ حقیقت سے مراد کوئی عمل کرتے ہوئے ایک ایسی چیز کی سچائی کو واضح کرنا ہوتا ہے جو اس سے پہلے اس طرح واضح نہیں ہوتی۔
اللہ تعالیٰ روزے میں یہ دونوں چیزیں بھوک پیاس جیسی بنیادی ضرورتوں کی تسکین پر پابندی لگا کر حاصل کرتے ہیں۔ کسی انسان کے لیے کھانا پینا چھوڑنا ایک بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ مگر روزے میں ایک بندہ مومن یہ کام اللہ کے حکم پر کر دیتا ہے۔ تیس دن تک انسان اگر یہ کام اپنے پورے شعور کے ساتھ کرے تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ خدا کے حکم پر وہ کھانا پینا چھوڑ سکتا ہے تو گناہ و نافرمانی چھوڑنا تو اس سے بہت چھوٹی بات ہے۔ یہ نافرمانی چھوڑنا ہی وہ تقویٰ ہے جسے رمضان کا مقصد قرار دیا گیا ہے۔
روزے میں غذا اور پانی سے محرومی انسان کو یہ احساس دلاتی ہے کہ زندگی کی بنیادی نعمتیں کس فراخی کے ساتھ اسے میسر ہیں۔ جب جی چاہے وہ کھاتا ہے اور جب دل چاہے وہ پیتا ہے۔ یہی معاملہ ہر دوسری بنیادی نعمت کا ہے۔ مگر انسان ان بنیادی نعمتوں کو بھول کر بہت چھوٹی چیزوں کی محرومی پر شور مچاتا ہے۔ وہ مایوس اور ناشکرا بن جاتا ہے۔ مگر طویل روزے کی بھوک اور گرمی کی پیاس اسے اس حقیقت پر متنبہ کرتی ہے کہ زندگی کی ہر بنیادی نعمت اس کے پاس ہے۔ یوں انسان شعور رکھنے والا ہو تو روزہ رکھ کر وہ واقعی شکر کرنے والا بن جاتا ہے۔