تقدیر اور اجر آخرت ۔ ابو یحییٰ
اے ٹی ایم مشین سے پیسے نکال کر جیسے ہی وہ صاحب باہر نکلے خاتون فوراً اندر داخل ہوگئیں اور میں دیکھتا رہ گیا۔ ہوا یہ تھا کہ میں اے ٹی ایم مشین بوتھ کے پاس پہنچا تو وہ صاحب مجھ سے قبل اپنی باری کا نتظار کر رہے تھے۔ وہ سائے میں کھڑے تھے۔ میں ان سے ذرا دور دوپہر کی تیز دھوپ میں کھڑا ہو کر انتظار کرنے لگا۔ اسی اثنا میں خاتون اپنے دو بچوں سمیت گاڑی سے اتر کر باہر نکلیں۔ ان کے قریب آنے سے قبل بوتھ خالی ہوگیا اور مجھ سے آگے کھڑے صاحب اندر چلے گئے۔ خاتون قریب آئیں تو میں نے خود سائے میں جانے کے بجائے ان کو وہاں کھڑے ہونے کا موقع دے دیا۔ تاہم ان خاتون پر بھی یہ بات بالکل واضح تھی کہ اگلا نمبر میرا ہی ہے۔
دھوپ میں انتظار کرتے ہوئے میں یہ طے کرچکا تھا کہ اب خود اندر جانے کے بجائے ان خاتون کو موقع دوں گا۔ مگر جب بوتھ کا دروازہ کھلا اور پیسے نکال کر وہ صاحب باہر نکلے خاتون فوراً اندر داخل ہوگئیں اور میں دیکھتا رہ گیا۔ مجھے افسوس ہوا۔ اپنے پیچھے رہ جانے پر نہیں۔ کیونکہ وہ تو میں پہلے ہی طے کرچکا تھا۔ افسوس ان کے پیچھے رہ جانے پر ہوا۔ انھیں وہی ملا جو اللہ تعالیٰ انھیں میرے ذریعے سے دینے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ مگر انھوں نے وہ اپنی چالاکی سے لینا چاہا۔ حق تلفی پر مبنی ایسی چالاکی انسان کو خدا کی نظر میں بہت پیچھے کر دیتی ہے۔
اِسی مثال سے وہ قانون سمجھا جاسکتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ اس دنیا کو چلا رہے ہیں۔ یہاں تمام فیصلے اللہ تعالیٰ خود کرتے ہیں۔ ان کے اسباب البتہ انسان جمع کرتے ہیں۔ ان اسباب کو جمع کرتے ہوئے وہ اخلاقی اصولوں کو پامال کریں گے تو ایسا نہیں ہوگا کہ اپنی تقدیر سے کچھ زیادہ لے لیں گے۔ انھیں ان کی تقدیر ہی ملے گی، لیکن آخرت کی پکڑ کے ساتھ۔ اور جو لوگ اخلاقی اصولوں کی پاسداری کریں گے۔ انھیں بھی ان کی تقدیر ہی ملے گی، مگر آخرت کے اجر کے ساتھ۔