تباہی سے بچنے کا راستہ ۔ ابویحییٰ
دور جدید کی مسلم فکری قیادت اور ان سے متاثر لوگوں کا ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہو گیا ہے کہ جب بھی انھیں ان کی غلطیوں پر توجہ دلائی جاتی ہے، وہ اپنی ہر غلطی کا اصل قصوروار دوسروں کو ٹھہرا کر خود اطمینان سے بری ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک دفعہ راقم کی ایسے ہی ایک صاحب سے گفتگو ہورہی تھی۔ وہ مسلمانوں کی ہر غلطی کا الزام دوسروں پر ڈالتے جا رہے تھے۔ آخرکار جب راقم نے ان سے پوچھا کہ ہمارے یہاں جو دودھ والے دودھ میں پانی ملاتے ہیں تو کیا یہ بھی امریکی سازش ہے؟ انھوں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے فوراً کہا۔ بالکل، یہ بھی امریکی سازش کا نتیجہ ہے۔
یہی وہ پس منظر ہے جس میں پاکستان اور دیگر ممالک میں جاری دہشت گردی جو اسلام اور جہاد جیسے مقدس ناموں پر کی جاتی ہے اور جس میں بے گناہ معصوم لوگ مارے جاتے اور اسلام بدنام ہوتا ہے، اس کے جواب میں بھی لوگ اطمینان سے اسی طرح کی توجیہات پیش کرتے رہتے ہیں۔ یہی وہ فکری حمایت ہے جو دہشت گردی کو مسلسل طاقت فراہم کر رہی ہے۔
ان تمام توجیہات کا بنیادی فلسفہ اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ چونکہ مغربی قوتوں نے ہمارے بعض علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ ہمارے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں، اس لیے ان کے خلاف ہر اخلاقی حدود سے ماورا ہوکر کوئی قدم اٹھانا بالکل جائز ہے۔ اس عمل میں عام لوگوں کی جان، مال، آبرو جاتی ہے تو جایا کرے، دشمن کو توکچھ نہ کچھ نقصان ہوجاتا ہے۔ چنانچہ یہی وہ پس منظر ہے جس میں خودکشی کے فعل حرام ہونے کے باوجود خود کش حملوں کے جواز اوران حملوں میں معصوم لوگوں کی جان لینے تک کے جواز پر باقاعدہ علمی بحثیں کی گئیں اور اگر مگر کی ڈھال سے ایسے لوگوں کا بھرپور دفاع کیا گیا۔
ہم بار بار مسلم لیڈرشپ کو یہ توجہ دلاتے رہے ہیں کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اور کر رہے ہیں، اسے کھیل نہ سمجھیں۔ اسلام کے نام پر کھڑے ہو کر مسلمہ اسلامی اور اخلاقی اقدار کی اس طرح پامالی کے نتائج انتہائی خوفناک نکلیں گے۔ مسلمان ختم نبوت کے بعد اس دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا کے قائم مقام ہیں۔ جن لوگوں نے قرآن کریم اور خاص کر حضرت یونس علیہ السلام کے واقعے کو پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھڑا ہوا کوئی شخص اگر اپنی ذمہ داری میں ذرا بھی آگے پیچھے ہوجائے تو پھر وہ کس طرح مچھلی کے پیٹ میں بند کر دیا جاتا ہے اور جب تک یکطرفہ طور پر معافی نہ مانگے رہائی نہیں ملتی۔ مسلمان توبہ کر کے اپنے اخلاق کو بہتر تو کیا کرتے انھوں نے مسلمہ اخلاقیات کی پامالی کو سند جواز بخشنا شروع کر دیا۔ جس کے بعد دور جدید کے مسلمان بھی مسائل کی ایسی ہی وہیل مچھلی کے پیٹ میں بند ہو چکے ہیں۔
دورجدید کے مسلمانوں کے مسائل کا آغاز انیسویں صدی میں پیش آنے والے مسئلے کو بالکل غلط طور پر سمجھنے سے شروع ہوا۔ اس دور میں دنیا بھرکے مسلم علاقوں پر مغربی طاقتوں نے قبضہ کر لیا۔ مسلم لیڈر شپ نے اس مسئلے کو یکطرفہ طور پر مغربی ممالک کی عیاری اور ظلم کے کھاتے میں ڈال دیا۔ حالانکہ یہ ایک سنت الٰہی کا ظہور تھا۔ یہ سنت پچھلے چار ہزار برس سے حضرت ابراہیم کی اولاد اور ان کے متعلقین کے بارے میں جاری ہے۔ مسلمانوں کے موجودہ زوال سے قبل پہلے یہودی اور پھر عربوں کی قیادت میں مسلمان اس سنت کی زد میں آتے رہے ہیں۔
سنت یہ ہے کہ یہ لوگ ایمان اور عمل صالح کی زندگی اختیار کریں گے تو ان کو زمین پر غلبہ و اقتدار عطا کر دیا جائے گا۔ جب نافرمانی کریں گے تو ان پر بطور سزا غیر ملکی حکمران مسلط کر دیے جائیں گے۔ یہود کی تاریخ میں آنے والی دو عظیم بربادیاں جن کا ذکر سورہ بنی اسرائیل کے آغاز میں ہے، اسی بنا پر نازل ہوئیں۔ چنانچہ پہلی دفعہ بخت نصر اور دوسری دفعہ ٹائٹس رومی کے ہاتھوں لاکھوں یہود قتل کیے گئے اور فلسطین پر ان کا قبضہ ہو گیا۔
مسلمانوں کی تاریخ میں بھی کم و بیش ایسی ہی دو عظیم بربادیاں وجود میں آئیں۔ پہلی تاتاریوں کے ہاتھوں اور دوسری دفعہ موجودہ دور میں مغربی اقوام کے ہاتھوں مسلمانوں کی مغلوبیت خدا کی اسی سنت کا ظہور ہے۔ مگر بدقسمتی سے مسلمانوں نے اس سنت کو نہیں سمجھا۔ اس کے بجائے انھوں نے بعض اہل علم کی اس اجتہادی غلطی کو اپنا ہدف بنالیا کہ غلبہ و اقتدار یا موجودہ دورکی مذہبی اصطلاح میں خلافت کی جدوجہد کرنا دین کا نصب العین ہے۔ ہمارے بزرگوں کی یہ علمی غلطی ہمالیہ جیسی عظیم غلطی تھی، مگر مسلمانوں کے مزاج کے موافق تھی اس لیے لوگوں نے اس کو قبول کر لیا۔ ان بزرگوں کے بعد جب اخلاقی طور پر پست لوگ اس غلطی کے وارث بنے تو یہ غلطی وہ جرم بن گئی جس کے نتیجے میں اسلام دنیا میں بدنام ہوتا ہے اور معصوم لوگ اسلام کے نام پر مارے جاتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس نظریے کے حق میں پورے قرآن میں ایک آیت بھی موجود نہیں ہے بلکہ قرآن مجید اس کے بالکل برعکس وہ بات کہتا ہے جو ہم نے اوپر بیان کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
’’تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے عمل صالح کیا اللہ کا ان سے وعدہ ہے کہ وہ انھیں زمین میں اقتدارعطا کرے گا جیسا کہ ان سے پچھلے لوگوں کو عطا کیا تھا۔‘‘ (النور 55:24)
دیکھ لیجیے اس آیت میں اللہ تعالیٰ یہ نہیں کہہ رہے کہ تم خلافت اور اقتدار کی جدوجہد کرو۔ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایمان لانے اور عمل صالح کرنے والوں کو وہ اقتدار دیں گے جیسا کہ پہلے وہ دیتے رہے ہیں۔ قرآن مجید اس قانون کو بیان ہی نہیں کرتا بلکہ ماضی میں بنی اسرائیل اور اُس دور میں موجود صحابہ کرام کے حوالے سے اس کے نتائج کو پوری طرح تاریخ میں کام کرتا ہوا دکھاتا ہے۔ ہم نے اپنی کتاب ’’آخری جنگ ۔۔۔‘‘ میں بہت تفصیل سے اس پورے تاریخی اور قرآنی پس منظر کو بیان کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون قرآن، سابقہ صحف سماوی اور تاریخ میں اتنے واضح طور پر بیان ہوا ہے کہ کوئی شخص جو خالی الذہن ہوکر قرآن کو پڑھے گا وہ کبھی اس کو سمجھنے میں غلطی نہیں کرے گا۔ قانون یہ ہے کہ غلبہ و اقتدار ایمان اور عمل صالح کا بدلہ ہے۔ یہ نہیں کہ اپنی ذات میں کوئی مقصد یا ہدف ہے جسے مسلمانوں کے سامنے رکھا گیا ہے۔ قرآن واضح کرتا ہے کہ صحابہ نے اس دعوت کو قبول کیا تو اللہ نے ان سے اقتدار کا وعدہ کیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ وعدہ پوری طرح نبھایا گیا۔ خلافت راشدہ کی شکل میں اس وعدہ کا ظہور تاریخ کے صفحات پر رقم ہے۔
یہی نہیں قرآن مجید ان سازشوں کو بھی زیر بحث لاتا ہے جن کے ذکر سے آج کے مسلمان کی زبان نہیں تھکتی۔ قرآن بتاتا ہے کہ کفار رسولوں کے خلاف وہ سازشیں کرتے تھے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہل جائیں، مگر وہ صحابہ کرام کو ان سازشوں کے خلاف کوئی مہم چلانے پر آمادہ نہیں کرتا۔ وہ کہتا ہے کہ اگر تم صبر کرو گے اور تقویٰ اختیار کرو گے تو ان کی سازشیں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ اس کے برعکس جب مسلمانوں کو جنگ احد اور جنگ حنین میں وقتی شکست اٹھانی پڑی تو قرآن نے فوراً توجہ دلائی کہ یہ ایمان واخلاق کے تقاضوں کو پامال کرنے کا نتیجہ تھا۔
چنانچہ جو لوگ اب اپنی غلطیوں کے جواب میں غیر مسلموں کی سازشوں کو وجہ جواز بناتے ہیں، ان کا مقدمہ قرآن کی روشنی میں بالکل باطل ہے۔ اوراسی روش کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کے موجودہ زوال کو دو سو برس گزرنے کے باوجود مسلمانوں کی تباہی اور ذلت کے دن ختم نہیں ہوتے۔ موجودہ دور میں مسلمانوں کی پے در پے تباہیوں کا اصل باعث بھی یہی چیز ہے۔
ایک آخری بات جو سب سے زیادہ اہم ہے، اس مضمون کو ہم اسی پر ختم کرنا چاہتے ہیں۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یہود پر آنے والی جن دو عظیم تباہیوں کا ذکر قرآن نے کیا ہے وہ اپنی شدت میں بتدریج بڑی تھیں۔ اور ان کا آخری مرحلہ وہ تھا کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے لوگ کھڑے ہوگئے جو یہود کو اللہ تعالیٰ کا قانون پوری طرح کھول کرسمجھا رہے تھے۔ مگر بجائے اس کے کہ وہ بات سمجھتے، الٹا وہ ان سمجھانے والوں کے دشمن بن گئے۔ انبیا علیھم السلام کو اسی وجہ سے قتل کیا گیا تھا، اسی جرم میں جیلوں میں ڈالا گیا تھا اور اسی کی پاداش میں جلاوطن کیا گیا تھا۔ مگر اس کے بعد خدا کے قہر کا وہ کوڑا برسا تھا جس نے یہود کی کمر توڑ دی تھی۔
آج مسلمانوں کو یہ بات ٹھیک اسی طرح سمجھائی جا رہی ہے جس طرح یہود کو سمجھائی گئی تھی۔ مگر بدقسمتی سے مسلم لیڈرشپ نے سمجھانے والوں کی بات کو ماننے کے بجائے سمجھانے والوں کو اپنے الزام و بہتان کا ہدف بنالیا ہے۔ عام لوگوں کو ان سے بدگمان کرنے کے لیے ایسی خوفناک اور جھوٹی مہمیں چلائی گئیں کہ شیطان بھی اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لے۔ یہ لوگ ایمان واخلاق کی اصلاح کرنے کے بجائے اس کا بدترین نمونہ بن چکے ہیں۔ مسلمانوں نے اگراس لیڈر شپ کی پیروی نہیں چھوڑی تو خدا کی سنت نہیں بدلے گی۔ جلد یا بدیر اس سنت الٰہی کا ظہور ہو گا۔ پھر عام و خاص اور گنہ گار و بے گناہ سب اس کی زد میں آئیں گے۔ ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں کہ اس سنت کا ظہور اب پاکستان میں ہو۔ لیکن لوگ باز نہ آئے تو پھر قرآن مجید نے بنی اسرائیل کی دو سزاؤں کے پس منظر میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ بالکل واضح کھول کر سنایا ہے۔
’’اگر تم پھر وہی کرو گے تو ہم بھی وہی کریں گے ۔‘‘ (بنی اسرائیل 8:17)
ہمارے لیے تباہی سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ ایمان اور اچھے اعمال کی دعوت کو اپنی زندگی بنائیں۔ اپنی شخصیت کو قرآن مجید کے پیش کردہ اخلاقی معیارات پر پرکھتے رہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق عالیہ کا نمونہ بننے کی کوشش کریں۔ صرف اسی لیڈرشپ کی پیروی کریں جو قرآن مجید کی اس دعوت کی نقیب ہے۔ کسی اور راستے پرچلنے والے خود بھی تباہی کے گڑھے میں گریں گے اور قوم کو بھی اسی میں گرائیں گے۔