سوچ اور عمل ۔ ابویحییٰ
’’دو تہائی شب گزر چکی تھی اور میں تہجد کی نماز پڑھ رہا تھا۔ نماز کے بیچ میں میں پانی پینے کے لیے اٹھا۔ والدہ کے کمرے کے پاس سے گزرتے ہوئے خیال آیا کہ دیکھ لوں انہیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔ اندر جھانکا تو محسوس ہوا کہ ان کے کمرے میں بہت ٹھنڈ ہو رہی ہے۔ میں انہیں چادر اڑھانے لگا تو ان کی آنکھ کھل گئی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بیٹا میں آج گولی کھانا بھول گئی ہوں، اس لیے ٹانگوں میں درد ہو رہا ہے۔ میں ان کی ٹانگیں دبانے وہیں بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد وہ اطمینان سے سو گئیں تو میں اٹھنے لگا اور اسی عمل میں میرا چشمہ میرے گھٹنے تلے آکر ٹوٹ گیا جو میں نے اتار کر نیچے رکھ دیا تھا۔‘‘
وہ سانس لینے کے لیے لمحہ بھر رکے تو میں نے کہا کہ یہ تو آپ کے ساتھ بہت بری ہوئی۔ آپ کو یہ خیال نہیں آیا کہ میں اعلیٰ ترین درجے کی نفلی عبادت میں مشغول تھا۔ ایک طرف نماز تہجد اور اس کے ساتھ ماں کی خدمت۔ وہ بھی ان کی تکلیف کے لمحات میں۔ لیکن آپ کو اس کا کچھ اچھا بدلہ نہیں ملا۔
وہ دوبارہ گویا ہوئے، ’’ہاں لمحے بھر کو یہ خیال آیا تھا، مگر پھر مجھے محسوس ہوا کہ نئے چشمے کا یوں ٹوٹ جانا کوئی نقصان نہیں، بلکہ نقد انعام ہے۔ یہ میری عبادت کی قبولیت کی نشانی ہے۔ بظاہر میرا نظر کا چشمہ ٹوٹا ہے، مگر اس کے بدلے میں مجھے وہ نظر عطا کر دی گئی جو شب کی سیاہی میں مجھے جنت کا روشن نظارہ کرا رہی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اگلے ہفتے مجھے ایک بہت بڑا حادثہ پیش آیا، لیکن اللہ تعالیٰ کی عنایت سے مجھے کوئی خاص نقصان نہ پہنچا۔ میں اُس لمحے اگر منفی انداز فکر کا شکار ہوجاتا تو خدا سے بدظن ہوکر اپنی محنت ضائع کر بیٹھتا اور دنیا اور آخرت کی نہ جانے کتنی بھلائیوں سے محروم ہوجاتا۔‘‘
وہ اپنی بات ختم کر کے کمرے سے باہر نکلنے کے لیے اٹھے، دروازے کے قریب پہنچ کر وہ لمحہ بھر کے لیے ٹھہرے اور یہ کہتے ہوئے باہر نکل گئے۔ ’’اس دنیا میں جتنا اہم تمھارا عمل ہے، اس سے کہیں زیادہ اہم تمھارے سوچنے کا انداز ہے۔ زندگی کا ہر اطمینان اور خوشی مثبت اندازفکر میں پوشیدہ ہے۔ جس شخص کے پاس مثبت سوچ کا سرمایہ نہیں اس کا کوئی عمل اسے خوشی اور کامیابی نہیں دے سکتا۔‘‘