سیاستدان بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ ۔ محمد عامر خاکوانی
آج کا موضوع دلچسپ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین لڑائی عرصے سے چلی آرہی ہے۔ سیاستدان یہ شکوہ کرتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں کام نہیں کرنے دیتی اور اصل اختیار اس کے ہاتھ میں رہتے ہیں۔ حال ہی میں نا اہل ہونے والے میاں نواز شریف اس حوالے سے آج کل خاصی تلخ گفتگو فرما رہے ہیں۔ ان کے خیال میں اسٹیبلشمنٹ منتخب وزیراعظم کے مینڈیٹ کا احترام نہیں کرتی۔ میاں صاحب کے ساتھی کھل کر یہ کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ حکومتوں کو کام نہیں کرنے دیتی، سازشیں ہوتی رہتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ چیئرمن سینیٹ رضا ربانی کمال کے آدمی ہیں، اصول پسند اتنے کہ فوجی عدالتوں کے قانون پر دستخط کرتے ہوئے آنجناب کی آنکھوں میں آنسو آگئے، یہ اور بات کہ جب ان کی پارٹی کی حکومت نے ملک کا بیڑا غرق کیا، ایک ایک کر کے قومی ادارے دیوالیہ کیے، تب موصوف کے چہرے کی مسکراہٹ تروتازہ رہی۔ خیر سیاستدان بمقابلہ اسٹبلشمنٹ والی تھیوری پر بات کرتے ہیں، مگر پہلے کچھ علمی، کتابی باتیں بھی پڑھ لیں۔
کبھی آپ نے اس پر غور کیا کہ عوام اپنے نمائندے کیوں چنتے ہیں، حکومت کس لیے بنائی جاتی ہے اور اس کا کیا کام ہے؟ اسی نکتے پر غور کریں تو بہت سی باتیں صاف ہوجاتی ہیں۔ ماہرین حکومتوں کی چند بنیادی ذمہ داریاں گنواتے ہیں، جو انہیں ہر حال میں عوام کے لیے نبھانا پڑتی ہیں۔
1۔ لوگوں کی جان ومال کا تحفظ یعنی لا اینڈ آرڈر
2۔ تعلیم اور صحت کی بہترین سہولتیں
3۔ صاف پانی
4۔ روزگار
5۔ نقل وحرکت کے لیے مناسب انفراسٹرکچر
6۔ سستا اور تیز رفتار انصاف
7۔ زندگی میں آگے بڑھنے کے مساوی مواقع
8۔ دنیا میں ایک باوقار قوم کے طور پر شناخت
ریاست یا حکومت اپنے عوام کو یہ سب چیزیں دینے کی ضمانت دیتی ہے اور اس کے بدلے میں عوام اسے اختیار اور اتھارٹی سونپتے ہیں اور اس کے قوانین ماننے کا عہد کرتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جسے معاہدہ عمرانی یا سوشل کنٹریکٹ کہتے ہیں۔ آئین دراصل سوشل کنٹریکٹ ہی ہے۔
ریاست اپنے لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے مختلف ادارے بناتی ہے۔ انصاف فراہم کرنے کے لیے عدالتیں بنائی جاتی ہیں، امن وامان قائم کرنے کیلئے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے قائم ہوتے ہیں۔ تعلیم کے لیے سرکاری سکول، کالج، یونیورسٹیاں جبکہ علاج معالجے کے لیے سرکاری ہسپتال بنائے جاتے ہیں۔ نقل و حرکت کے لیے اچھی سڑکیں، موٹر وے، ہائی ویز وغیرہ بنتی ہیں اور صاف پانی کے لییفلٹر پلانٹس وغیرہ۔ روزگار کے لیے ریاست مختلف ایسے منصوبے بناتی ہے، جن سے روزگار پیدا ہو، شرح ترقی تیز رکھی جائے تاکہ کاروبار مندے نہ پڑیں اور نجی سطح پر کام کاج ملتا رہے۔ ریاست کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ کلاس سسٹم کو کم کرے، امیر اور غریب کے مابین فرق زیادہ نہ بڑھے۔ یہ یقینی بنائے کہ امیر کی اولاد اور غریب کا بچہ دونوں کے لیے آگے بڑھنے کے مساوی مواقع موجود ہوں۔ اس لیے غریب مگر لائق ترین بچوں کو اسکالرشپس دی جاتی ہیں۔ ان سب کے لیے ضروری ہے کہ ریاست امیروں سے ٹیکس لے، جو ویلفیئر کے کاموں پر خرچ ہوسکے۔ ریاست کا ایک کام مستقبل کی ضروریات کو سامنے رکھ کر اپنے ان شعبوں کو بہتر بنانا بھی ہے، جن کے ذریعے دنیا میں ممتاز ہوا جاسکے۔ مثال کے طور پر جن ممالک نے دس پندرہ برس پہلے آئی ٹی پر توجہ دی، وہ آج اربوں ڈالر اس کے ذریعے کما رہے ہیں، نالج اکانومی نے بہت سے ایسے نئے راستے کھول دیے ہیں، جن کی طرف بروقت توجہ دینے والے دوسروں سے بہت آگے نکل سکتے ہیں۔
یہاں تک پڑھ لینے والے قارئین کے ساتھ معذرت کہ آج اکیڈیمک سطح کی گفتگو ہو رہی ہے، مگر بات کو سمجھانے کے لیے یہ ضروری تھا۔ اوپر دی گئی گڈ گورننس کی خوبیوں کو جاننے کے بعد واضح ہوگیا ہوگا کہ عوام کا مینڈیٹ لینے والے کسی بھی منتخب حکمران کو سب سے پہلے کیا کرنا چاہیے؟ جواب آسان ہے، اسے ملک میں امن وامان بہتر بنانے اور لوگوں کو جان، مال، عزت کا تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔ شہری زندہ بچیں گے تو پھر باقی کام ہوسکیں گے۔ لا اینڈ آرڈر بہتر بنانے کا سادہ نسخہ ہے کہ ہر صوبے میں پولیس کو غیر سیاسی بنایا جائے۔ ایک بہترین، دیانت دار افسر کو آئی جی پولیس بنایا جائے، اسے مکمل اختیارات اور مالی وسائل دیے جائیں اور یقین دہانی ہو کہ کسی وزیر، ایم این اے، ایم پی اے کا اسے فون نہیں جائے گا۔ ٹرانسفر، پوسٹنگ میں سیاسی مداخلت نہیں ہوگی۔ پولیس کی نفری اور تنخواہ بڑھانی پڑے تو فوری عمل ہو۔ پولیس سے صرف نتائج مانگے جائیں۔ کرپٹ افسروں کو برطرف اور اچھے افسروں کی حوصلہ افزائی کا نظام وضع ہو۔ گلی محلے کی سطح پر پولیسنگ سسٹم مضبوط ہو۔ ایسا کرنے کی صورت میں چند ماہ کے اندر جرائم کی شرح میں نمایاں کمی آجائے گی۔ عام آدمی کو تھانے سے ریلیف ملنا شروع ہوجائے تو اسے کسی رکن اسمبلی، چیئرمین، کونسلر کی سفارش لے کر جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
اسی انداز میں ہسپتالوں کو بہتر بنایا جائے، ہر بڑے شہر کے اندر میڈیکل کالج کے ساتھ منسلک بڑا ہسپتال ہوتا ہے جسے ٹیچنگ ہسپتال کہتے ہیں۔ جیسے لاہور میں میو، سروسز، گنگا رام اور جناح ہسپتال کی صورت میں بڑے ٹیچنگ ہسپتال ہیں۔ ان کے ساتھ جنرل، چلڈرن، گلاب دیوی، کارڈیالوجی جیسے اہم ہسپتال بھی موجود ہیں، مختلف علاقوں میں دو چار اور ہسپتال بھی ہیں۔ یعنی لاہور کی سطح پر کل نو دس ہسپتال ہیں۔ کوئی بھی حکومت اگر طے کر لے کہ ان میں انقلاب لانا ہے تو اسے صرف چھ آٹھ ماہ چاہیے ہوں گے۔ چند مستعد افسران جو ان ہسپتالوں کے ہفتہ وار چکر لگاتے رہیں اور ایمرجنسی، آؤٹ ڈور پر نظر رکھیں، ڈاکٹروں کی حاضری یقینی بنائی جائے، دوائیاں مریضوں کو ملتی رہیں، لیب بہتر ہو، صفائی اچھی کی جائے وغیرہ وغیرہ۔ یہی تجربہ تحصیل، ڈسٹرکٹ ہسپتالوں میں دہرایا جائے، ایک حیران کن تبدیلی ہزاروں لاکھوں مریضوں کو محسوس ہونے لگے گی۔
تعلیم کا نظام بہتر بنانے میں کچھ زیادہ وقت لگ جائے گا، کیونکہ وہاں تباہی بھی زیادہ ہوئی ہے، مگر بہرحال درست سمت میں سفر کا آغاز کرنے سے دو چار برسوں میں سرکاری سکول کی توقیر لوٹ آئے گی، کالجوں، یونیورسٹیوں کے معیار کو بہتر بنا لیا جائے گا۔ صاف پانی کی فراہمی میں اس سے بہت کم وقت صرف ہوگا۔ آسان ترین طریقہ تو یہ ہے کہ سرکاری عہدہ یا منصب سنبھالنے والے ہر شخص کے لیے یہ لازمی قرار پائے کہ اس کی اولاد سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھے گی اور اس کا اور اس کے اہل خانہ کا علاج سرکاری ہسپتالوں میں ہوگا۔ تب انقلاب نعرہ نہیں رہے گا، وہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں عملی صورت پر نظر بھی آئے گا۔ منتخب لیڈر کو سب سے زیادہ توجہ ٹیکس کے نظام پر دینی چاہیے کہ اس کے پاس پیسے ہوں گے تو لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوسکیں گے۔ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے منصوبے بنائے جائیں، غریب اور امیر کے مابین فرق کم کرنے کی پلاننگ ہو۔ ایسے اقدامات ہوں جن کا فائدہ متوسط اور نچلی سطح کے لوگوں کو پہنچے۔
صاحبو! اب تک جو لکھا گیا ہے، اس پر نظر ڈالیں اور یہ سوچیں کہ ان تمام کاموں کے کرنے میں کون سی اسٹیبلشمنٹ یا نادیدہ قوتیں رکاوٹ بنی ہیں؟ کسی نے میاں نواز شریف یا آصف زرداری صاحب کو روکا تھا کہ وہ ملک میں صحت اور تعلیم کی سہولتیں بہتر نہ بنائیں؟ کسی نے انہیں یہ کہا کہ پولیس کے اچھے افسر نہ لگاؤ اور غلطی سے اے ڈی خواجہ جیسا دیانت دار آئی جی لگ جائے تو اسے ہٹانے کے درپے ہوجاؤ۔ اسٹریٹ کرائم ختم کرنے سے کس نے روکا؟ عام آدمی کے لیے صاف پانی کی فراہمی میں کون رکاوٹ بنا؟ کس نے کہا کہ ملک میں روزگار کے منصوبے نہ بناؤ اور دو ڈھائی سو ارب روپے نئی صنعتیں قائم کرنے کے بجائے ٹرین کے منصوبوں پر لگا دو۔ کس نے نواز شریف صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ لگاؤ، جسے زراعت کا ککھ پتہ نہیں، جو کاشت کاروں کا بیڑا غرق کر دے اور ملکی تاریخ میں پہلی بار ہزاروں، لاکھوں کسان زمینیں کاشت کرنے کے بجائے خالی چھوڑ دیں۔ کس نے انہیں اس پر مجبور کیا؟ ملک میں تربیت یافتہ لیبر کی شدید ضرورت ہے، سی پیک کی کامیابی کی صورت میں اگلے چند برسوں کے دوران ہمیں لاکھوں ایسے ٹرینڈ مزدور، مکینک وغیرہ چاہئیں۔ اس طرف کیوں کچھ نہیں کیا جا رہا؟ کیا اس کے لیے اسٹیبلشمنٹ رکاوٹ بنی ہے؟ یہ سب کام ایسے ہیں جن کے کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مسائل صرف نیشنل سکیورٹی ایشوز میں درپیش آتے ہیں۔ جو کام سول حکومتیں آسانی سے کرسکتی ہیں، وہ تو کریں۔ ایسا کرنے کے بجائے ہر قومی ادارے پر اپنی مرضی کا کمزور شخص لگا کر اربوں، کھربوں لوٹنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کئی برسوں تک حکومت میں رہنے کے باوجود عوام کے لیے کچھ بھی نہ کر پائے تو تمام الزام اسٹیبلشمنٹ پر دھر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ سیاستدانوں کی ناکامی ان کی اپنی ناکامی ہے، اسٹیبلشمنٹ کا کوئی عمل دخل نہیں۔ اپنی غلطیاں انہیں ماننی چاہئیں۔
ہمارا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے غلطیاں نہیں ہوتیں۔ نیشنل سکیورٹی ایشوز پر بھی انہوں نے بہت سے بلنڈر کیے۔ مگر ان پر الگ سے بات ہوگی۔