سیاسی انتہا پسندی ۔ ابو یحیی
پچھلے دو عشروں سے مذہبی انتہا پسندی کے نتائج بھگتنے کے بعد آج کل ہم سیاسی انتہا پسندی کے عفریت کو بے قابو دیکھ رہے ہیں۔سیاسی انتہا پسندی مذہبی انتہا پسندی سے کم خطرناک نہیں ہوتی۔ بلکہ تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ باعتبار نتائج سیاسی انتہا پسندی کسی سماج کے لیے کہیں زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاستدانوں کے ہاتھوں میں اقتدار ہوتا ہے۔اقتدار کی یہ طاقت جب انتہاپسندی سے ملتی ہے تو فاشزم ، جنگ و جدل اور شیطانیت کا راج قائم ہوجاتا ہے۔ معصوم لوگوں کا قتل، اہل علم و دانش کی زباں بندی اور ظلم و بربریت اس انتہا پسندی کے لازمی نتائج ہیں۔
پاکستان میں سیاسی انتہا پسندی کے فروغ کا سبب وہ سیاسی مبصرین ہیں جو ٹی وی ٹالک شوز اور اخباری کالموں میں نفرت اور یکطرفہ نقطہ نظر کے فروغ کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ اپنی دانست میں یہ لوگ شاید کسی برائی کے خلاف جنگ لڑرہے ہوں، مگر ان کو معلوم نہیں کہ انتہا پسندانہ رویہ اپنی ذات میں خود سب سے بڑی برائی ہے۔ یہ رویہ معاشرے میں برداشت اور اختلاف رائے کو مکمل طور پر ختم کردیتا ہے۔ یہ رویہ اپنی غلطیوں کی اصلاح کا راستہ بند کردیتا ہے۔ یہ رویہ آخر کار معاشرے میں سوچنے اور غورکرنے کا دروازہ ہی بند کردیتا ہے۔اس کے بعد ملک میں جبر کی تاریک رات چھاجاتی ہے۔خوف کے سائے ہر جگہ پھیل جاتے ہیں۔ جان ، مال اور آبرو کی حرمت پامال ہوجاتی ہے۔
ہمیں اپنے ملک کو اگر اس صورتحال سے بچانا ہے تو انتہا پسندی کی ہر قسم سے اپنے لوگوں کومتنبہ کرنا ہوگا۔ ان کے اندر تحمل اور برداشت پیدا کرنا ہوگا۔ہر اس شخص سے بچنا ہوگا جو انتہا پسندی کو فروغ دے۔ ہم نے یہ نہیں کیا تو ایک عظیم تباہی کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے۔