سیاسی انتہا پسندی کا بھوت ۔ ابویحییٰ
ہمارے سماجی وجود کو لگے وہ گھاؤ بھی ابھی مندمل نہیں ہوئے جو مذہبی انتہا پسندی کے لگائے ہوئے ہیں کہ ہم سیاسی انتہا پسندی کے جال میں پھنستے چلے جارہے ہیں۔ خود کش حملے، بم دھماکے، فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ اور عبادت گاہوں پر حملوں میں ہم نے ہزاروں قیمتی جانیں گنوائیں۔ ابھی بھی وقفے وقفے سے کوئی نہ کوئی شخص مذہبی بنیادوں پر مارا جاتا ہے۔
مگراس کا کیا کیجیے کہ ہم ایک آگ سے پوری طرح نہیں نکلے ہیں کہ دوسرے گڑھے میں گرنے کے لیے تیار ہوچکے ہیں۔ مگر یہ جان لینا چاہیے کہ سیاسی انتہا پسندی کے ہاتھوں آئی تباہی مذہبی انتہا پسندی سے کہیں زیادہ شدید ہوگی۔
سیاسی انتہا پسندی کیا ہے؟ اپنے لیڈر سے دیوانہ وار عشق، مخالف لیڈروں سے شدید نفرت، اپنے سیاسی تعصبات میں اندھا ہوکر ان حقائق کو دیکھنے سے بھی انکار کردینا جو اندھوں کو بھی نظر آرہے ہوں، ہر معقول بات کو سنی ان سنی کردینا، ہر اخلاقی قدر کو پامال کرکے پروپیگنڈا کرنا، دوسروں کی پرخلوص اور معقول بات سنے اور سمجھے بغیر یک طرفہ طور پر اپنی بات کہتے چلے جانا۔
سیاسی انتہا پسندی دل پسند نعروں سے شروع ہوکر یا تو کمیونزم جیسے قاتل انقلاب میں ڈھلتی ہے یا پھر نازی فاشزم کے جبر کی شکل اختیار کرتی ہے۔ ایسے میں قدرت پہلے مرحلے پر وارننگ کے طور پرمعاشی عذاب کو مسلط کرتی ہے۔ اگر قوم کا نصیب اچھا ہوتا ہے تو معاشی عذاب کی ماری قوم توبہ کرکے سیاسی انتہا پسندی کے راستے پر مزید بڑھنے سے رک جاتی ہے۔
لیکن قوم اگر اس معاشی عذاب سے سبق نہ سیکھے اور اسی انتہا پسندی کے راستے پر قدم بڑھاتی رہے تو آخرکار دوسری اقوام سے ٹکراؤ شروع ہوجاتا ہے جو آخرکار مکمل تباہی پر ختم ہوتا ہے۔ اب یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ان دو مراحل میں سے کس کے بعد سیاسی انتہا پسندی کا یہ بھوت ہم پر سے اترے گا۔