صراطِ مستقیم ۔ ابویحییٰ
آج کے انسان کا مسئلہ کیا ہے؟ اسے اگر ایک جملے میں بیان کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ اس نے صراط مستقیم کھودی ہے۔ وہ زندگی کی شاہراہ پر بےمقصد گھوم رہا ہے۔ اس آوارہ گرد کی طرح جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔ جس کا کوئی گھر نہیں ہوتا۔ جس کی صبح میں کوئی جوش اور جس کی شام میں کوئی قرار نہیں ہوتا۔
انسان ایسا کیوں ہوگیا ہے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ زندگی کی کہانی کے آغاز و انجام دونوں کو فراموش کر بیٹھا ہے۔ وہ اس کہانی کے صرف اس حصے سے واقف ہے جو آج اس کے سامنے ہے۔ آج کے انسان کے سامنے صرف دنیا ہے۔ اس کی خوشیاں ہیں۔ اس کے غم ہیں۔ اس کی لذتیں ہیں۔ اس کی تلخیاں ہیں۔ اس کی آسائشیں ہیں۔ اس کے مسائل ہیں۔ اس کی نعمتیں ہیں۔ اس کی محرومیاں ہیں۔ اس کا پانا ہے۔ اس کا کھونا ہے۔
سنی حکایتِ ہستی تو درمیاں سے سنی
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
صراطِ مستقیم سے بھٹک کر انسان نہ دنیا میں بھیجنے والے رب کو یاد رکھتا ہے اور نہ اس آخرت کو جس کی طرف اسے ہر حال میں لوٹ کر جانا ہے۔ آج دنیا پرستی کے فتنے نے ہمیشہ سے بڑھ کر انسان کو اپنی منزلِ مقصود اور اس تک پہنچانے والی صراطِ مستقیم سے غافل کیا ہے۔ حتیٰ کے وہ لوگ جو اپنے آپ کو صراطِ مستقیم کا امین کہتے ہیں، خود دنیا پرستی کے فتنہ کا شکار ہیں۔
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
ان کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
مجھے پیسہ کمانا ہے۔ تاکہ اچھی جگہ میری شادی ہوجائے، تاکہ میرا گھر بن جائے، تاکہ میرے بچوں کو اچھی تعلیم مل جائے، تاکہ معاشرے میں مجھے باوقار مقام مل جائے، تاکہ میری اولاد کا مستقبل سنور جائے۔ آج ہمارے معاشرے کے ہر فرد کا یہ نصب العین بن چکا ہے۔ اس کے لیے وہ ہر حد کو توڑ دیتا ہے۔ ہر قدر کو پامال کر دیتا ہے۔ ہر اصول کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ اسے ایک روز مرنا ہے۔ اس کی قبر اس کی منتظر ہے۔ اسے حشر کے روز اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہے۔ اپنے رب کے حضور پیش ہوکر زندگی کے نیک و بد کا حساب دینا ہے جس کی جزا ابدی جنت ہوگی یا ابدی جہنم۔
دنیا میں اپنی ضروریات، سہولیات اور آسائشوں کے لیے جدوجہد کرنا کوئی جرم نہیں۔ جرم یہ ہے کہ انسان اس عمل میں آخرت کو فراموش کر دے۔ وہ دنیا کی عارضی زندگی کو اپنا نصب العین بنا بیٹھے۔ خدا کی عطا کردہ صراطِ مستقیم سے بھٹک جائے۔
صراط مستقیم کیا ہے؟ اس سوال کا جواب جاننا کوئی مشکل کام نہیں۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ صراطِ مستقیم وہ راستہ ہے جس پر چل کر بندہ اپنے رب کی رضا اور جنت حاصل کرسکتا ہے۔ اس سے مراد لغوی معنوں میں کوئی سیدھا راستہ نہیں۔ ہم میں سے ہر شخص روز اپنے گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر سیدھا پہنچتا ہے۔ اس عمل میں یہ نہیں ہوتا کہ ہم گھر سے نکلے اور ناک کی سیدھ میں چل کر اپنی منزل پر پہنچ جائیں۔ ہمیں بار بار موڑ مڑنے پڑتے ہیں۔ بار بار نشیب و فراز عبور کرنے ہوتے ہیں۔ اس سفر میں ہم صرف ایک کام کرتے ہیں۔ یعنی ہر موڑ پر ٹھیک فیصلہ کہ ہمیں کس سمت جانا ہے۔ ہم بارہا ایک خوبصورت راستہ نظرانداز کر دیتے ہیں۔ بارہا ہموار سڑک چھوڑ کر ناہموار راستہ لے لیتے ہیں۔ اس لیے کہ ہر اچھا اور آسان راستہ ہماری منزل کی طرف نہیں جاتا۔
جنت کے مسافر بھی اپنے صراطِ مستقیم پر ایسے ہی سفر کرتے ہیں۔ جب حلال و حرام کا کوئی موڑ آئے تو حرام کی تمام تر آسانی کے باجود وہ اسے نظرانداز کر دیتے ہیں۔ فواحش و منکرات کی شاہراہ کتنی ہی حسین کیوں نہ ہو وہ اسے چھوڑ کر پرہیزگاری کی مشکل چڑھائی چڑھتے ہیں۔جنت کے مسافر راستے کی رنگینیوں کی خاطر کبھی اپنی منزل کھوٹی نہیں کرتے۔ وہ جانتے ہیں کہ صراطِ مستقیم اپنے نفس کو پاکیزہ کرنے کا نام ہے۔ نفس کی یہ پاکیزگی کسی کوہ، کسی غار میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے سے حاصل نہیں ہوتی۔ شاہراہِ زندگی کو چھوڑ کر، مسائل زندگی سے فرار اختیار کر کے یہ پاکیزگی نہیں ملتی۔ یہ پاکیزگی زندگی میں پیش آنے والے اچھے برے حالات میں تقویٰ اختیار کرنے سے ملتی ہے۔ یہ ہر حال میں رب سے جڑے رہنے سے ملتی ہے۔
جب غصہ آرہا ہو، جب حرص کا زور ہو، جب طمع کی بھٹی دہکے، جب ہوس کا غلبہ ہو، جب خواہش ناگ بن کر پھنکارے، جب شیطان اپنے لشکر سمیت چڑھ دوڑے، تو جان لیجیے زندگی کے راستے میں کوئی موڑ آیا ہے۔ آپ کو اب فیصلہ کرنا ہے۔ آپ اپنے جذبات کی پیروی کرتے ہیں یا قرآن کی بتائی ہوئی مشکل راہ۔ بہت عارضی سی مشکل راہ۔ اختیار کرتے ہیں۔ پہلی صورت میں آپ صراطِ مسقیم سے بھٹک جائیں گے اور دوسری صورت آپ کو آپ کی منزل۔ خدا کی جنت۔ سے قریب کر دے گی۔
صراط مستقیم جنت کے راستے کا نام ہے۔ جنت سے قریب کرنے والی ہر شے صراطِ مستقیم ہے۔ زندگی کی ہر آزمائش میں جسے یہ بات یاد رہی وہ صراطِ مستقیم پر ہے۔ جسے یہ بات یاد نہ رہی وہ صراطِ مستقیم سے دور ہے۔