سکندر جب گیا دنیا سے۔۔۔ ۔ ابویحییٰ
سکندرِاعظم (356ق م- 323ق م) کا شمار دنیا کے عظیم ترین فاتحین میں کیا جاتا ہے۔ وہ سائرس (جسے قرآن ذوالقرنین کہتا ہے) کے بعد پہلا شخص تھا جس نے تمام قدیم دنیا کو فتح کر کے اس پر اپنی حکومت قائم کی۔ اس کا باپ فلپ، یونان کی ایک چھوٹی سی ریاست مقدونیہ کا حکمران تھا، مگر سکندر نے صرف چند برسوں میں اُس تمام دنیا کو زیر وزبر کرڈالا جو یونان سے ہندوستان تک لاکھوں مربع میل پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی عظیم یوریشیائی سلطنت میں چین ہی واحد متمدن خطہ تھا جو اس کی قلمرو میں شامل نہ تھا۔
سکندر کی یلغار اتنی شدید تھی کہ دارا کی عظیم ایرانی سپر پاور خس و خاشاک کی طرح اس کے سامنے بکھر کر رہ گئی۔ اس کے حوصلے اتنے بلند تھے کہ رواں دریا، فلک بوس پہاڑ، عظیم صحرا، وسیع و عریض میدانی علاقے، بپھرے ہوئے سمندر، اندھیری راتیں، موسلادھار بارش، کچھ بھی اس کا راستہ نہ روک سکے۔ قدیم دنیا کے سارے خزانوں اور سارے علاقوں کا یہ مالک، صرف بتیس سال آٹھ ماہ کی عمر میں ملیریا کا شکار ہوکر، عراق کے قدیم شہر بابل میں انتقال کرگیا۔ اس کے بعد جلد ہی اس کا بارہ سالہ بیٹا مارڈالا گیا اور اس کی نسل ختم ہوگئی۔
سکندر کی زندگی اور اس کی شخصیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا نمونہ قائم کیا ہے جس میں قیامت تک انسانوں کے لیے عبرت و نصیحت کا سامان ہے۔ ہر انسان جو اس دنیا میں آتا ہے اپنے سینے میں خواہشات کا ایک طوفان لیے پھرتا ہے۔ وہ دولت ، شہرت، حکومت اور طاقت کے پیچھے بھاگتا ہے۔ کبھی وہ نامراد رہ جاتا ہے اور کبھی مقدر کا سکندر بن کر اپنی ہر خواہش پالیتا ہے۔ مگر ایک عظیم حقیقت ایسی ہے جو کبھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑ تی۔ وہ یہ کہ ایک روز بہرحال اسے مرنا ہے اور اپنی آرزوؤں کی سلطنت کو چھوڑ کر اسے حقیقت کی اُس دنیا میں جانا پڑتا ہے جس کا نام آخرت ہے۔
انسانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ دنیا ہی میں اپنی جنت بنانا چاہتے ہیں۔ وہ گاڑی ، بنگلہ اور سوناچاندی کو اپنا مقصود بنالیتے ہیں۔ وہ اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ ایک روز موت کو آنا ہے۔ وہ آ کر رہے گی۔ 323ق م میں یہ سکندر کو آئی تھی اورایک صدی کے اندر اِس وقت تک زندہ ہر انسان کو آجائے گی۔
انسان کے لیے اہم بات یہ نہیں ہے کہ اس نے اِس دنیا میں کیا حاصل کیا۔ اسے تو ہر چیز سکندر کی طرح چھوڑ کر جانی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنی ابدی زندگی کے لیے کیا لے کر جا رہا ہے۔